آج جنت میں کتنی رونق ہو گی
جنت کے ہر دروازے پر جنت کے باسی قطاردرقطارخوشی و طرب کی حمدوثنا کرتے ہوئے استقبال میں لگے ہوں گے۔ ایک معتبروبزرگ فرشتے نے مسکراتے ہوئے کہا ہوگا:
"وہ دیکھو! وہ عظیم ماں آرہی ہے جسے بھاگ جانے کا موقع دیا گیا، مگر اس نے آگ میں جل جانا پسند کیا، مگر اپنی جان بچا کر نہیں بھاگی۔ آج میں اس ماں کو جنت کی سردار خواتین کے سامنے لے جاؤن گا اور کہوں گا کہ اے نبی ﷺ کی بیوی، اے نبی ﷺ کی بیٹی میں تمہاری خدمت میں ایک ایسی ماں لایا ہوں جس نے دنیا میں ایک ٹیچر ہونے کا، ایک ماں ہونے کا حق ادا کردیا ہے، وہ اٹھیں گی اور اس ماں کے ماتھے پر بوسہ لیں گی، کیا شان ہے اس ماں کی، یہ میرا اعزاز ہے کہ میں اسکی خدمت بجالاؤں گا"
ایک دوسرے فرشتے نے کہا ہوگا:
"وہ دیکھو! ننھی ننھی پیاری پیاری بچیاں آ رہی ہیں۔ انہیں ہم جنت میں شہزادیوں کی طرح رکھیں گے"
ایک حسین حور بولے گی:
"وہ دیکھو، وہ پیارے پیارے بچے آرہے ہیں۔ وہ جو جنت میں قاسم اور طاہر کے ساتھ کھیلیں گے، حسن اور حسین کی صف میں کھڑے ہوں گے۔ یہ میرے پیارے ہیں، مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کی دلجوئی کے لیے چنا ہے"
ایک دوسری حور بولے گی:
"وہ معصوم سا پیارا سانونہال سابچہ جس نے سر پر ٹوپی رکھی ہوئی ہے، جس کا چہرہ کسی فرشتے کی طرح ہے وہ میرا بیٹا ہے۔ اس کی ماں اسکے لیے آہ و کرب میں ڈوبی ہوگی، مگر میں اسے پاکر خود کو سب سے خوشقسمت سمجھوں گی، وہ بچہ مجھے اللہ نے عطا کیا ہے"
آج کنڑ میں کتنی رونق ہو گی
فضل للہ اور اسکے ساتھی اپنے اپنے بلوں میں گھس کر شکرانے کے نفل ادا کررہے ہوں گے کہ انہیں دنیا سے کافرومرتدمسلمانوں کی ایک نسل کو ختم کرنے کا موقع ملا ہے۔انہیں فخر ہوگا کہ ان کے وہ سات ساتھی جو اس اہم مہم پر گئے تھے ، وہ آج سرخرو ہو گئے ہیں،یہ سچے مسلمان ہیں۔ یہی لوگ اسلام کو صحیح سمجھتے تھے، آج انہوں نے بھی اپنا نام شہیدوں میں لکھوا لیا ہے۔ آج وہ بھی جنت میں ستر ستر حوروں کے ساتھ اٹھکیلیاں کررہے ہوں گے۔ آج ان کے مولوی خدا کے حضور بسجدہ ہونگے کہ انہوں نے ان لوگوں کی جو ذہنی پرورش کی، وہ رنگ لائی۔۔۔

آج رائے ونڈ میں کتنی رونق ہو گی
نوازشریف کے کندھوںپر سے ایک بہت بڑابوجھ اتر گیا! 126 دِن سے دھرنے کاجو پستول اسکی کنپٹی پر تھا، وہ خودبخود ہٹ گیا! جس دھرنے کو روکنے کے لیے گلوبٹ چھوڑے گئے، فائرنگیں ہوئیں، پولیس کی دھشتگردی کرائی گئی، پارلیمنٹ میں آرمی کو جھوٹا کہا گیااور جن پر الزامات لگائے گئے، سچ دکھانے پر ٹی وی چینلز بند کئے گئے، واہگہ پر انسان کے خون سے ہولی کھیلی گئی، ماڈل ٹاؤن میں قتل کرائے گئے، حاملہ عورتوں پر گولیاں چلوائی گئیں، بزرگ لوگوں کو گھسیٹا گیا، اندھوں پرتشدد کیا گیا۔۔۔۔ آج رائے ونڈ میں کتنی رونق ہو گی۔ خواجہ سعد کی بے لگام زبان، رانا ثنااللہ کی بدمعاشیاں، پرویزرشید کے جھوٹ، خواجہ آصف کا اسی آرمی کے خلاف زہر اگلنا، جس کی نسبت عہدے پر وہ فائز ہے۔۔۔آج رائے ونڈ میں کتنی رونق ہو گی کہ جس آرمی کے خلاف ایک مدت سے زہر اگل رہے ہیں، جس آرمی کو کھوکھلا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے وہ آرمی جو پاکستان کے اتحاد کا واحد ذریعہ ہے اسے اور بم کو جس نے ان کے نظام کر ہلا کر رکھ دیا، وہ بم جو ایسی ٹک ٹک ٹک کررہا تھا گویا اب وہ ایسا پھٹے گا کہ گونوازگو ہوکر ہی رہے گا۔۔۔ خودبخود ٹھس ہو گیا، آرمی نے جو غداری 1998 میں کی تھی، اسکا بہت عمدہ بدلہ چکا دیا - ایک تیر میں دو شکار - اسے کہتے ہیں ایک بال پر دو وکٹ گرانا۔۔۔ آج تو سچ مچ میں رائے ونڈ میں بڑی رونق ہوگی۔۔۔

تین دن کرب میں رہنے کے بعد آج جب ہوش آیا اور حالات کا جائزہ لینا شروع کیا تو بہت سارے سوال ذہن میں جنم لینے لگے۔
رات بھر میں دہشت گردوں کو پھانسی دینے کی قراداد منظور! اگلے چند ہی گھنٹوں میں ان پر عمل۔۔۔ ہماری قوم کو اس عمل پر حکومت کا شکرگزار ہونا۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟
کیا ہماری قوم سمجھتی ہے کہ پھانسی دینے سے دہشت گردی پر قابو پا لیا جائے گا؟ وہ دہشت گرد جواپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر خود کو اڑا دیتے ہیں، کیا انہیں پھانسی کا خوف ہوگا؟!! یا کیا ان کے پھانسی دئیے جانے سے ان کے دوسرےساتھیوں پر خوف طاری ہو جائے گا؟ اور وہ حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جائے گے؟ وہ لوگ جو خود کو بم سے اڑادیتے ہیں؟؟؟؟ ہوش کے ناخن لیں!
۔۔ اور یہ بھی کتنا گنواؤنا مذاق ہے کہ ماڈل ٹاؤن کے دہشتگرد دھندھناتے پھررہے ہوں اورانہیں پھانسی دی جارہی ہو، جو پہلے ہی جیل میں مقید ہیں۔۔۔
یہ بھی کتنا سنگین جرم ہے اس عوام کے ساتھ کہ الطاف حسین جیسا سفاک انسان آزاد ہے اور اسکی تنظیم جو پاکستانی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کرنے میں ملوث ہے، اس پر کوئی زبان نہیں کھولتابلکہ وہ میڈیا کا ڈارلنگ بنا ہوا کہ کو کوئی خبراسکی بکواس کے بنا مکمل نہیں ہوتی!!
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ "طالبان اور ہمارا مؤقف ایک ہے!" – فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ "طالبان کے ساتھ ہمارادل دھڑکتا ہے" – اسی طرح کےاور بہت سارے ایسے ناسور ہیں جو طالبان کوحق بجانب سمجھتے ہیں۔جب دہشگردی کی پشت پناہی کرنے والے اس ملک کی سپید و سیاہ کے مالک ہیں تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ طالبان کو پھانسیاں دینے سے ملک میں امن ہو جائے گا؟
ماڈل ٹاؤن کے شہدا چیخ چیخ کر اپنے قاتلوں کی پھانسی کی اپیل کررہے ہیں! شہبازشریف کو پھانسی پر لٹکایا جائے! خواجہ سعد کو پھانسی پرلٹکایا جائے! راناثنااللہ کو پھانسی پر لٹکایا جائے!
کراچی میں زندہ جلائے جانے والی لاشیں اپیل کررہی ہیں کہ الطاف حسین کو پھانسی پر لٹکایا جائے! ایم کیو ایم کو کالعدم تحریک قراردیا جائے!
اور اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو جان جائیے کہ نہ ہی تو آپ دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں!راولپنڈی کی قتل وغارت کا کچھ فیصلہ ہوا؟ واہگہ پر 50 سے زیادہ افراد کے قتل کو کوئی فیصلہ ہوا؟ ہزارہ میں قتل و غارت کے مجرموں کو سزا ملی؟اب بھی 141 معصوم انسانوں کی لاش پر چنددن واویلے کیے جائیں گے۔۔۔ چہروں پر مکروہ اداسی لیکر ٹی وی کیمروں کے سامنے افسوس کیے جائیں گے ، کمیٹیاں بنائیں جائیں گی، پتہ نہیں کس کس کو کس کس جرم میں پھانسی پر لٹکادیا جائے گا اور عوام کو خوش کردیا جائے گا۔۔۔ اورعوام! یہ منافق عوام! ایک بار پھر چنگل میں پھنس گئی اور ہر کوئی اپنے اپنے شہیدوں کے لیے روتارہے گا، اس ملک میں ضیاالحق بھی شہید ہے اور بھٹوبھی، یہاں ہر کوئی جنتی ہے، آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچے بھی اور ظلم کرنے والے طالبان بھی۔۔ ہر کوئی شریف ہے، چاہیے نام شریف ہو یا نہ!

مسعود - دسمبر2014