26 Jun 2014 | By:

" وہ بیتے دن یاد ہیں



صحن میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا " صنف نازک کا دل فتح کرنے کے گلابی طریقے" ابھی میں نے تیسرا صفحہ ہی پڑا تھا کہ ایک عدد گلاب کا پھول مجھ پر آگرا ، مارے خوشی کہ میں کرسی سے نیچے جا پڑا ، تھوڑا نشہ اترا تو دیکھا کہ اوپر ایک بلا ایک بلی سے دل کی بات کہنے کیلئے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا اور اس دوران گملے میں لگا گلاب کا خوشبو دار پھول ہم پر آن گرا تھا ، اس وقت اللہ کا شکر ادا کیا کہ گلاب کے پھول کے ساتھ گملا نہیں تھا ،ویسے تو ہمارے گھر کے اوپر کرائے دار ماشا اللہ کافی خوش شکل ہیں ، گلاب کا پھول ہاتھوں میں لئے ابھی کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ، والدہ محترمہ بازار گئی تھیں سوچا وہ آئیں ہونگی ، میں نے دروازہ کھولتے ہی گلاب کا پھول آگے کردیا ، سامنے اپنی محلے والی کو دیکھ کر پیروں تلے زمین ہی نکل گئی ، 42سالہ تھوڑی نرم اور کچھ کچھ نازک سی خاتون کے چہرے کا رنگ ایک دم گلاب جیسا ہوگیا لیکن جیسے ہی اسے کہا کہ سوری باجی میں سمجھا امی تھیں تو کدو جیسی شکل بنائی اور منہ پھلاتی ہوئی چلی گئی ، میری سانس بحال ہوئی تو امی دروازے تک پہنچ چکی تھیں ، میرے ہاتھ میں گلاب کا پھول دیکھ کر کہنے لگیں کس کا انتظار ہو رہا ہے میں نے کہا گھر کی مالکن کے بغیر دل اداس ہورہا تھا تو دروازے پر کھڑا ہوگیا، ہم پھر برآمدے میں بیٹھے کتاب کھول کر پڑھنے لگے اور ساتھ ہی گلاب کی خوشبو کا بھی مزہ لیتے رہے ، اچانک ہاتھ جو گھوما تو گلاب ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا ، میں نے اوپر سے جھانکا تو سر ہی پیٹ لیا کیوں کہ گلاب کا پھول سیدھا گھر کی کام والی پر گرا تھا ، جس کی پوری بتیسی مجھے دیکھ کر باہر آگئی تھی وہ تو مجھے اس وقت رومیو سمجھ رہی تھی لیکن میں اسے جولیٹ کیسے کہہ سکتا تھا کیوں کہ اس کا رنگ ہمارے روٹی پکانے والے توے سے بس کچھ ہی کم کالا تھا ہاں پر دل کی بہت اچھی تھی ، دروازہ والدہ نے کھولا اور ہاتھ میں گلاب دیکھ کر سر کھجانے لگیں اور پھر اپنے کام میں لگ گئیں، کچھ عرصے بعد ہم نے وہ گھر چھوڑ دیا لیکن آج بھی وہ گلاب کا پھول یاد آتا ہے
پرنس کی کتاب" وہ بیتے دن یاد ہیں" سے اقتباس

0 comments:

Post a Comment