یہ پُھول یہ پرند یہ گھر چھوڑ جاؤں گی
لیکن میں سب میں اپنا اثر چھوڑ جاؤں گی
رختِ سفر میں رکھوں گی بس تیرے جستجو
باقی ہر ایک چیز اِدھر چھوڑ جاؤں گی
لگتا ہے میں بھی سایۂ دیوار کی طرح
اک روز دن ڈھلے یہ نگر چھوڑ جاؤں گی
بچّوں کی طرح پالا ہے تیرے خیال کو
میں سوچتی ہوں اس کو کدھر چھوڑ جاؤں گی
میں وہ نہیں کہ موت سے مل کر نہ آسکوں
میں اپنے لوٹنے کی خبر چھوڑ جاؤں گی
ترسیں گے پھر یہ لوگ میرے شور کو قمر
چڑیوں کی طرح میں بھی شجر چھوڑ جاؤں گی
0 comments:
Post a Comment