مذاق میں بھی کسی انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان چیزوں کا تمسخر اڑائے جن پہ انسان کا اختیار نہیں۔۔ جب ہم ایسا کر رہے ہوتے ہیں تو ہم بلواسطہ اس ذات کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔ جس نے ان چیزوں کو تحلیق کیا ہے۔ انسان ناسمجھ ہے اور اس چیز کا شعور نہیں رکھتا۔۔ اس لیے تو خسارے میں رہتا ہے۔۔۔ ڈاکڑ خاور نے تاسف بھرے انداز میں کہا تھا۔۔ وہ دل ہی میں ان نرسوں سے کی بھرپور کلاس لینے کا تہیہ کر چکے تھے۔۔
" رہنے دیں ڈاکٹر صاحب ! مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں۔ اللہ خود ہی ان سے پوچھ لے گا۔" سکینہ کی بات پر اماں نے دہل کر نادان بیٹی کو دیکھا۔۔
" خبردار سکینہ ! کسی نوں اینج نئیں کہندے، اگر تینوں کوئی شکوہ نئیں تے اللہ تے کیویں چھڈ دی اے۔۔ سوہنے رب دا انصاف بڑا سخت اے پتر ! انساناں نوں خود معاف دیندے آں، اللہ دی پکڑ بڑی سخت اے۔۔ سب لئی خیر منگیا کر دھی رانی !" جمیلہ مائی کے لہجے میں عاجزی ہی عاجزی تھی۔۔ ڈاکٹر خاور اس ان پڑھ خاتون سے سخت متاثر تھے۔۔ جس کے دل میں اللہ کی محبت اور خوف نے سب کے لیے خیر اور بھلائی بھر دی تھی۔۔ وہ تیزی سے کمرے نکلے اور اپنا چشمہ اٹھانا بھول گئے۔۔ جبکہ سکینہ نے اماں کی نظروں سے بمشکل بچتے ہوئے اس چمشے کو فورا عقیدت سے اٹھا کر اپنے تکیے کے نیچے چھپا دیا تھا۔۔ اسے لگا جیسے اسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو۔۔
" رہنے دیں ڈاکٹر صاحب ! مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں۔ اللہ خود ہی ان سے پوچھ لے گا۔" سکینہ کی بات پر اماں نے دہل کر نادان بیٹی کو دیکھا۔۔
" خبردار سکینہ ! کسی نوں اینج نئیں کہندے، اگر تینوں کوئی شکوہ نئیں تے اللہ تے کیویں چھڈ دی اے۔۔ سوہنے رب دا انصاف بڑا سخت اے پتر ! انساناں نوں خود معاف دیندے آں، اللہ دی پکڑ بڑی سخت اے۔۔ سب لئی خیر منگیا کر دھی رانی !" جمیلہ مائی کے لہجے میں عاجزی ہی عاجزی تھی۔۔ ڈاکٹر خاور اس ان پڑھ خاتون سے سخت متاثر تھے۔۔ جس کے دل میں اللہ کی محبت اور خوف نے سب کے لیے خیر اور بھلائی بھر دی تھی۔۔ وہ تیزی سے کمرے نکلے اور اپنا چشمہ اٹھانا بھول گئے۔۔ جبکہ سکینہ نے اماں کی نظروں سے بمشکل بچتے ہوئے اس چمشے کو فورا عقیدت سے اٹھا کر اپنے تکیے کے نیچے چھپا دیا تھا۔۔ اسے لگا جیسے اسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو۔۔
(صائمہ اکرم چوہدری کے ناول ’’دیمک زدہ محبت‘‘ سے اقتباس)
0 comments:
Post a Comment