23 May 2013 | By:

شیخ چلی کا گھر

شیخ چلی کا گھر
______________

ایک لڑکے کا باپ مر گیا۔ وہ جنازے کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر روتا ہوا جارہا تھا۔ اپنے سر پر دو ہتڑ مارتا اور کہتا تھا۔ ’’ابا آخر تمہیں کہاں لیے جارہے ہیں۔ ایک تنگ و تاریک اور تکلیف دہ گھر میں ،جہاں غالیچہ اور فرش تو کیا بوریا بھی نہ ہوگا۔ نہ رات کو چراغ ہوگا نہ کھانے کے لیے کوئی چیز۔ وہ عجب گھر ہوگا جس کا نہ دروازہ ہے نہ چھت اور نہ ہی روشنی کے گزرنے کیلئے کوئی روشن دان۔ نہ ...وہاں کوئی پڑوسی ہوگا اور نہ ہی کوئی سہارا۔‘‘ غرض اسی طرح وہ لڑکا اس نئے گھر یعنی قبر کے اوصاف گناتا جاتا تھا اور زارو زار روتاجاتا تھا۔

شیخ چلی بھی اپنے باپ کے ہمراہ اس جنازے میں شریک تھے۔ اپنے باپ سے کہنے لگے۔ ’’بابا گھر کی نشانیاں تو دیکھو ساری کی ساری ہمارے گھر کی ہیں۔ ہمارے بھی نہ چٹائی ہے نہ دیا۔ نہ دروازہ ہے نہ چھت نہ کھڑکی اور نہ ہی کوٹھا

کیا یہ اس میت کو ہمارے گھر لے جارہے ہیں۔‘

0 comments:

Post a Comment