1 Aug 2013 | By:

سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے مصاحبین نے انہیں یہ شکایت لگائی کہ بادشاہ سلامت ایاز کی ایک الماری

سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے مصاحبین نے انہیں یہ شکایت لگائی کہ بادشاہ سلامت ایاز کی ایک الماری ہے یہ اس الماری کو تالا لگا کر رکھتا ہے وہ روزانہ اس الماری کو کھول کر دیکھتا ہے اور کسی دوسرے بندے کو دیکھنے نہیں دیتا ہمارا خیال ہے کہ اس نے آپ کے خزانے کے قیمتی ہیرے اور موتی اس کے اندر چھپا کر رکھے ہوئے ہیں آپ ذرا اس کی تلاشی لیجیے جب بادشاہ کو یہ شکایت لگائی گئی تو بادشاہ سلامت نے اسی وقت ایاز کو بلوایا اور کہا ایاز کیا تمہاری الماری ہے اس نے کہا جی ہے پوچھا کیا اسے تالا لگا کر رکھتے ہو اس نے کہا جی ہاں پوچھا کسی اور کو دیکھنے دیتے ہو عرض کیا جی نہیں پھر پوچھا کیا تم خود اسے روزانہ دیکھتے ہو عرض کیا جی ہاں پھر بادشاہ نے فرمایا کہ چابی لاؤ ایاز نے چابی دے دی بادشاہ نے کسی بندے کو بھیجا کہ جاؤ اس الماری میں جو کچھ موجود ہے وہ لا کر یہاں سب کے سامنے پیش کر دو وہ حاسدین بڑے خوش ہوئے کہ دیکھو اب اس کی حقیقت کھل جائے گی جب اس کی چوری کا سامان سامنے آئے گا تو بادشاہ ابھی اس کو یہاں سے دھکے دے کر نکال دے گا اللہ کی شان کہ جب وہ بندہ واپس آیا تو اس نے آکر بادشاہ کے سامنے تین چیزیں رکھ دیں ایک پرانا جوتا اور پرانا تہبند اور ایک پرانا کرتا بادشاہ نے پوچھا اس میں کچھ اور نہیں تھا اس نے کہا جی نہیں یہی کچھ تھا بادشاہ نے کہا ایاز اس میں تو کوئی ایسی قیمتی چیز نہیں ہے جسے تم تالے میں بند کر کے رکھو اور کسی دوسرے کو دیکھنے بھی نہ دو اور کوئی ایسی چیز بھی نہیں کہ جسے تم روزانہ آکر دیکھو کرو کہ ٹھیک ہے یا نہیں اس نے کہا بادشاہ سلامت بات یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ بہت قیمتی ہیں بادشاہ نے پوچھا بھئی وہ کیسے اس نے کہا بادشاہ سلامت وہ اس لیے کہ جب میں آپ کے دربار میں پہلی مرتبہ آیا تھا تو یہ جوتے پہنے ہوئے تھے یہ تہبند باندھا ہوا تھا اور کرتا پہنا ہوا تھا میں نے ان تینوں چیزوں کو محفوظ کر لیا تھا اب میں روزانہ الماری کھول کر ان کو دیکھتا ہوں اور اپنے نفس کو سمجھاتا ہوں کہ ایاز تمہاری اوقات یہی تھی تم اپنی نہ بھولنا اب تمہیں جو کچھ ملا ہے یہ سب تمہاری بادشاہ کا تم پر احسان ہے لہٰزا تم اپنے بادشاہ سلامت کا احسان سامنے رکھنا بادشاہ سلامت اس طرح مجھے اپنی اوقات یاد رہتی ہے کہ میں کیا تھا اور مجھے بادشاہ کے قرب نے کیا کیا عزتیں بخشیں

0 comments:

Post a Comment