7 Aug 2013 | By:

ڈیپریشن سے نجات

 ڈیپریشن سے نجات

اگر آپ کو یوں محسوس ہونے لگے کہ آپ ایک ایسے بے قابو گھوڑے پر سوار ہیں جس کی نہ باگ آپ کے ہاتھ میں ہے اور نہ آپ کے پیر اس کی رکاب میں ہیں۔ نہ آپ کو اس کی رفتار پر قابو ہے اور نہ اس کی سمت کا پتا‘ اور پھر ایسا لگے گویا آپ زندگی کے تقاضے پورے کرنے کے اہل نہیں رہے تو سمجھ لیجئے کہ آپ دباؤ میں ہیں۔ مختلف لوگوں کے لیے دباؤ کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں اور دباؤ کے مختلف معنی ہوتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پہلے ہمارا دفتر الگ تھا اور گھر الگ۔ آپ نے دفتر کاکام ختم کیا … دفتر بند ہوا تو دفتری مسائل وہیں چھوڑ کر آپ گھر آگئے۔ ماں باپ‘ بہن بھائی‘ بیوں بچوں سے باتیں‘ دوست احباب سے ملاقات‘ تفریح اور آرام۔ سکون کے ساتھ دوسرے دن پھر دفتر میں حاضری۔ اب وہ دور ہے کہ اکثر لوگوں کے لیے خصوصاً شہر کے باسیوں کیلئے دفتر اور گھر کی درمیانی حد ختم ہوگئی ہے۔ دفتر میں دیر تک کام کیا اور پھر گھر پہنچے تو بھلا ہو کمپیوٹر اور موبائل فون کا وہاں بھی دفتری کاموں نے پیچھا نہ چھوڑا۔
یوں تو دباؤ کی وجوہ ان گنت ہیں لیکن ماہرین کے نزدیک زیادہ قصور کام کی زیادتی‘ روزگار کے عدم استحکام اور زندگی کے بارے میں غیرحقیقی رویوں کا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ آپ ہر وقت مصروف ہیں۔ نتیجہ تھکن‘ چڑچڑے پن اور خرابی صحت کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے۔ آپ کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ آپ ٹھیک سے کھانا کھالیں‘ ورزش کرلیں اور چین سے سوسکیں۔ پھر بھلا صحت کیا خاک ٹھیک رہے گی۔
دباؤ کے اثرات بھی مختلف ہوتے ہیں‘ لیکن ایک عام اثر بے خوابی ہے اور یہ بے خوابی متعدد مسائل کی جڑ ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم تھک ہار کر رات کو بستر پر گرپڑتے ہیں جسم تھکا ہوا ہوتا ہے‘ لیکن دماغ اس وقت بھی کاروباری اور دفتری الجھنوں میں پھنسا ہوتا ہے۔ مشکل سے دو تین گھنٹے کی نیند نصیب ہوتی ہے اور صبح ہم تھکے جسم اور تھکے دماغ کے ساتھ دفتر پہنچتے ہیں جہاں کاغذوں کے ڈھیر اور فائلوں کے انبار ہمارا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں لوگ اس دباؤ کا علاج شراب‘ کافی اور چائے وغیرہ سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کافی اور چائے کی ہمارے ہاں بھی کمی نہیں‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ دباؤ سے چھٹکارا پانے کا ایک منفی طریقہ ہے جو صحت کو مزید خطرے میں مبتلا کردیتا ہے اور رفتہ رفتہ مرض قلب‘ بلند فشار خون اور بہت سی دوسری بیماریاں لاحق ہونے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ مختصر یہ کہ دباؤ ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور اور کھوکھلا کرنے لگتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جو لوگ دباؤ کا شکار ہوچکے ہیں اور یہ مسئلہ ان کیلئے روز بروز شدید ہوتا جارہا ہے انہیں اس منصوبے پر عمل کرنا چاہیے:
1۔ جن باتوں کو وہ اپنے دباؤ کا سبب سمجھتے ہیں انہیں ضبط تحریر میں لے آئیں اور ان کی فہرست بنالیں۔
2۔ اس فہرست کو غور سے دیکھیں اور ان اسباب کو علیحدہ لکھ لیں جن پر آپ قابو پاسکتے ہیں۔
3۔ پھر ان اسباب پر قابو پانے کی کوشش کیجئے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس طرح دباؤ کے اسباب کی فہرست نسبتاً مختصر ہوجائے گی اور آپ کیلئے ان پر ایک ایک کرکے قابو پانا آسان ہوجائے گا۔
دباؤ پر قابو پانے کے یوں تو مختلف طریقے ہیں‘ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ آپ ’’ نہیں‘‘ کہنا سیکھیں۔ یعنی ناجائز باتوں اور غلط تقاضوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالیں۔
دباؤ کو دور بھگانے کا ایک بڑا اچھا طریقہ ورزش ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ ہیلتھ کلب میں جاکر ورزشی آلات کا سہارا لیں۔ ایک سستا طریقہ چہل قدمی اور سائیکل سواری بھی ہے۔ شہر سےباہر خاموش فضا میں ایک گھنٹہ سائیکل چلائیے۔ دیکھیے کیسا مزہ آتا ہے اور صحت پر کیسا خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ شہر سے باہر نہ جاسکیں تو دریا یا نہر کے کنارے بھی یہ ورزش خوب رہے گی۔چہل قدمی اور سائیکلنگ سے مزاجی کیفیت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور دفتر اور گھر کے جھگڑے خاصے کم ہوجاتے ہیں۔ اس ورزش کے دوران میں بہت سی باتوں پر غورو خوض کا موقع بھی مل جاتا ہے لیکن خبردار دفتری معاملات پر ہرگز غورنہ کیجئے گا۔
ہر ورزش اپنی اپنی جگہ فائدہ مند ہے۔ دماغ تازہ ہوتا ہے‘ دوران خون بہتر ہوتا ہے‘ جسمانی نظام کی اصلاح ہوتی ہے اور تناؤ کم ہوتا ہے۔ دباؤ سے پیدا ہونے والے فاضل ہارمون‘ ورزش سے ختم ہوتے ہیں اور دماغ میں ایسے کیمیائی مادے پیدا ہوتے ہیں جو دافع درد ہونے کی تاثیر رکھتے ہیں۔ ان کیمیائی اجزاء کا جسم اور دماغ دونوں کی کارکردگی پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔
ورزش سے وزن میں کمی اور توانائی میں اضافہ ہوتا ہے اور عام صحت بہتر ہوتی ہے۔ نتیجے میں زندگی کے بارے میں ہماری سوچ زیادہ مثبت ہوجاتی ہے۔ دباؤ اور اس سے متعلقہ مسائل کا مستقل حل ماہرین کے خیال میں یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو انسان سمجھیں‘ روبوٹ نہ سمجھیں۔ جی لگا کر کام کیجئے‘ لیکن آرام اور تفریح کیلئے بھی وقت نکالیے۔ دفتری کام کے دوران میں وقفہ بھی کیجئے اور کوشش کیجئے کہ یہ وقفہ دفتر سے باہر گزاریں جہاں موبائل فون آپ کے کان سے نہ چپکا رہے۔ آپ کے کاموں کی فہرست میں وہ کام سرفہرست رہیں جنہیں کرنا آپ کے بس میں ہے۔ جو کام آپ کے بس ہی میں نہ ہوں ان کےپیچھے نہ پڑیے۔ اپنی غذا کا خیال رکھیے اور الم غلم کھانے کے بجائے صحت بخش غذا کھائیے۔
ورزش کو اپنا معمول بنالیجئے۔ سماجی زندگی اور میل ملاقات کو اہمیت دیجئے۔ آخری اور اہم بات یہ ہے کہ زندگی کی رفتار کو ایسا رکھیے کہ یہ اچانک رک نہ جائے۔
یہی مثبت انداز ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے میں اسی طریقے کو اپنائیے تاکہ آپ کے جسم کا مدافعتی نظام 
ہر صورت حال سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہے۔

0 comments:

Post a Comment