سوال:
لیلۃ القدر کی حقیقت سمجھ نہیں آتی _____
جواب:
ہاں یہ ہے انا انزلنٰہ ہم نے اسے نازل فرمایا فی لیلۃ القدر قدر کی رات میں۔ اب وہ رات گز ر گئی ہے۔ کسی رات کی یاد کوئی اور رات نہیں ہے۔وہ رات اس لیے مقدس ہے کہ اُس رات میں قرآن نازل ہوا۔ قرآن نازل ہونے کے بعد وہ رات آج کی رات نہیں ہے۔
سوال:
قرآن ایک رات میں تو نازل نہیں ہو ابلکہ وہ تو کافی عرصہ نازل ہوتا رہا۔
جواب:
اسے منسوب کر دیا گیا کہ اس ایک مقام پر قرآن کریم آیا تھا‘ پھر اُس کے بعد ترسیل ہوتی رہی ۔ وہ ایک رات ہے جسے ہم اپنے رمضان شریف میں کہتے ہیں کہ یہ رات جو ہے یہ لیلۃ القدر ہے‘ یہ بتانے کے لیے ہے تاکہ آپ کو عبادت کا موقع ملے‘ عبادت کی چاشنی ہو‘ اﷲ کے تقرب کو حاصل کرو ورنہ تو اﷲ کی طرف سفر کرنے والے کے لیے ہر رات ہی لیلۃ القدر ہے۔ جس نے قرآن نہیں پڑھا اُس کو قرآن نازل ہونے کی اہمیت کا کیا پتہ چلے گا۔ لہٰذا اگر قرآن پڑھا نہیں ہے ‘ قرآن سمجھا نہیں ہے اور کہہ رہاہے کہ آج رات قرآن نازل ہوا تھا تو اسے قرآن کا کیا پتہ ۔ جس نے قرآن پڑھنا نہیں ہے تو اسے قرآن کے نزول کی برکت کیا ہوگی۔اس لیے اپنا عمل درست کرو تو سارا واقعہ یہیں ہو جائے گا‘یہیں آپ کے اندر قاب قوسین کی سمجھ آجائے گی‘ یہیں جبریل سمجھ آجائے گا‘ یہیں ناسوت ہے‘ یہیں ملکوت ہے‘ لاہوت ہے اور ہاہوت ہے۔ ناسوت کیا ہوتا ہے؟یعنی انسانی وجود میں‘وجود کی جو خواہشات ہیں یہ سب ناسوت ہوتی ہیں اور آپ کی فرشتوں جیسی جوصفات ہیں یہ ملکوتی ہیں اور جب آپ الٰہیات کی طرف نکل جائیں تو پھر وہ لاہوت آگیا۔ وہاں فرشتہ بھی ختم ہوجاتا ہے اور انسان بھی ختم ہوجاتا ہے‘صرف اﷲ کی ذات ہے اور ’’تو ہی تو ہے‘‘۔ تویہ ایک مقام آگیا۔ پھر ایک اور مقام آتا ہے جو بزرگوں نے بتایا ہوا ہے‘کبھی اﷲ چھپ جاتا ہے اور انسان ڈھونڈتا ہے اور کبھی انسان کہتا ہے کہ میں چھپ رہاہوں تو تُو ڈھونڈ‘ پھر انسان کہتا ہے کہ ہم دعا کرتے کرتے تھک گئے ہیں‘ اب ہم نے دعا نہیں کرنی‘ تیری مرضی ہے دے یا نہ دے۔ تب اﷲ دے دیتا ہے۔ کب دیتا ہے؟ جب تم گلے سے بالکل نکل جاتے ہو۔ اﷲ کے ساتھ دوستی میں یہ واقعہ ہو سکتا ہے۔ انسان کہتا ہے کہ اب ہم نے آپ سے کیا لینا ہے اور کیا مانگنا ہے کیونکہ ہمارے پاس آپ کے محبوب کی محبت ہے‘ اب تو خود ہی دیتا جائے گا۔ یہ کبھی کبھی ہوتا ہے تاکہ یہ بے باکی کہیں گستاخی نہ بن جائے۔ اگر آپ کو پوری جان دینے کا عمل نہیں آیا تو اﷲ سے بے تکلفی جو ہے یہ گستاخی ہے۔ اگر آپ نے جان دینی ہے اور اس کا پورا حکم مانناہے تو پھر آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں۔
سوال:
یہ تو بہت مشکل ہے۔
جواب:
اگر مشکل ہے تو پھر آپ بچے رہو۔ آپ کے لیے عبادت ہی کافی ہے۔
(حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ)
لیلۃ القدر کی حقیقت سمجھ نہیں آتی _____
جواب:
ہاں یہ ہے انا انزلنٰہ ہم نے اسے نازل فرمایا فی لیلۃ القدر قدر کی رات میں۔ اب وہ رات گز ر گئی ہے۔ کسی رات کی یاد کوئی اور رات نہیں ہے۔وہ رات اس لیے مقدس ہے کہ اُس رات میں قرآن نازل ہوا۔ قرآن نازل ہونے کے بعد وہ رات آج کی رات نہیں ہے۔
سوال:
قرآن ایک رات میں تو نازل نہیں ہو ابلکہ وہ تو کافی عرصہ نازل ہوتا رہا۔
جواب:
اسے منسوب کر دیا گیا کہ اس ایک مقام پر قرآن کریم آیا تھا‘ پھر اُس کے بعد ترسیل ہوتی رہی ۔ وہ ایک رات ہے جسے ہم اپنے رمضان شریف میں کہتے ہیں کہ یہ رات جو ہے یہ لیلۃ القدر ہے‘ یہ بتانے کے لیے ہے تاکہ آپ کو عبادت کا موقع ملے‘ عبادت کی چاشنی ہو‘ اﷲ کے تقرب کو حاصل کرو ورنہ تو اﷲ کی طرف سفر کرنے والے کے لیے ہر رات ہی لیلۃ القدر ہے۔ جس نے قرآن نہیں پڑھا اُس کو قرآن نازل ہونے کی اہمیت کا کیا پتہ چلے گا۔ لہٰذا اگر قرآن پڑھا نہیں ہے ‘ قرآن سمجھا نہیں ہے اور کہہ رہاہے کہ آج رات قرآن نازل ہوا تھا تو اسے قرآن کا کیا پتہ ۔ جس نے قرآن پڑھنا نہیں ہے تو اسے قرآن کے نزول کی برکت کیا ہوگی۔اس لیے اپنا عمل درست کرو تو سارا واقعہ یہیں ہو جائے گا‘یہیں آپ کے اندر قاب قوسین کی سمجھ آجائے گی‘ یہیں جبریل سمجھ آجائے گا‘ یہیں ناسوت ہے‘ یہیں ملکوت ہے‘ لاہوت ہے اور ہاہوت ہے۔ ناسوت کیا ہوتا ہے؟یعنی انسانی وجود میں‘وجود کی جو خواہشات ہیں یہ سب ناسوت ہوتی ہیں اور آپ کی فرشتوں جیسی جوصفات ہیں یہ ملکوتی ہیں اور جب آپ الٰہیات کی طرف نکل جائیں تو پھر وہ لاہوت آگیا۔ وہاں فرشتہ بھی ختم ہوجاتا ہے اور انسان بھی ختم ہوجاتا ہے‘صرف اﷲ کی ذات ہے اور ’’تو ہی تو ہے‘‘۔ تویہ ایک مقام آگیا۔ پھر ایک اور مقام آتا ہے جو بزرگوں نے بتایا ہوا ہے‘کبھی اﷲ چھپ جاتا ہے اور انسان ڈھونڈتا ہے اور کبھی انسان کہتا ہے کہ میں چھپ رہاہوں تو تُو ڈھونڈ‘ پھر انسان کہتا ہے کہ ہم دعا کرتے کرتے تھک گئے ہیں‘ اب ہم نے دعا نہیں کرنی‘ تیری مرضی ہے دے یا نہ دے۔ تب اﷲ دے دیتا ہے۔ کب دیتا ہے؟ جب تم گلے سے بالکل نکل جاتے ہو۔ اﷲ کے ساتھ دوستی میں یہ واقعہ ہو سکتا ہے۔ انسان کہتا ہے کہ اب ہم نے آپ سے کیا لینا ہے اور کیا مانگنا ہے کیونکہ ہمارے پاس آپ کے محبوب کی محبت ہے‘ اب تو خود ہی دیتا جائے گا۔ یہ کبھی کبھی ہوتا ہے تاکہ یہ بے باکی کہیں گستاخی نہ بن جائے۔ اگر آپ کو پوری جان دینے کا عمل نہیں آیا تو اﷲ سے بے تکلفی جو ہے یہ گستاخی ہے۔ اگر آپ نے جان دینی ہے اور اس کا پورا حکم مانناہے تو پھر آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں۔
سوال:
یہ تو بہت مشکل ہے۔
جواب:
اگر مشکل ہے تو پھر آپ بچے رہو۔ آپ کے لیے عبادت ہی کافی ہے۔
(حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ)
0 comments:
Post a Comment