موت کے وقت امید کی خوشی
تہذیب الاخلاق
اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید جب زندگی کا چراغ ٹمٹماتا ہے اور دنیوی حیات کا آفتاب لب بام ہوتا ہے، ہاتھ پاؤں میں گرمی نہیں رہتی، رنگ فق ہو جاتا ہے، منہ پر مردنی چھاتی ہے، ہوا ہوا میں، پانی پانی میں، مٹی مٹی میں ملنے کو ہوتی ہے، تو تیرے ہی سہارے سے وہ کٹھن گھڑی آسان ہو جاتی ہے-
...
وقت زرد چہرے اور آہستہ آہستہ ہلتے ہوے ہونٹوں اور بے خیال بند ہوتی ہوئی آنکھوں اور غفلت میں ڈوبتے ہوے دل کو تیری یادگار ہوتی ہے- تیرا نورانی چہرہ دکھائی دیتا ہے- تیری صدا کان میں آتی ہے اور ایک نئی روح اور تازہ خوشی حاصل ہوتی ہے اور ایک نئی لازوال زندگی جس میں ایک ہمیشہ رہنے والی خوشی ہوگی امید ہوتی ہے-
او ہماری آنکھوں میں چھپی ہوئی دوسری دنیا جس میں ہم کو ہمیشہ رہنا ہے، جہاں سورج کی کرن اور زمانے کی لہر بھی نہیں پہنچتی- تیری راہ تین چیزوں سے طے ہوتی ہے: امن کے توشے, امید کے ہادی اور موت کی سواری سے- مگر ان سب میں جس کو سب سے زیادہ قوت ہے وہ امن کی خوبصورت بیٹی ہے، جس کا پیارا نام 'امید' ہے-
0 comments:
Post a Comment