ہمارے پاس تو آؤ، بڑا ندھیرا ہے
کہیں نہ چھوڑ کے جاؤ، بڑا اندھیرا ہے
اُداس کر گئے بے ساختہ لطیفے بھی
اب آنسوؤں سے رُلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
کوئی ستارہ نہیں پتھروں کی پلکوں پر
کوئی چراغ جلاؤ، بڑااندھیرا ہے
حقیقتوں میں زمانے بہت گزار چکے
... کوئی کہانی سناؤ ، بڑا اندھیرا ہے
کتابیں کیسی اٹھا لائے میکدے والے
غزل کے جام اٹھاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
غزل میں جس کی ہمیشہ چراغ جلتے ہیں
اسے کہیں سے بلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
وہ چاندنی کی بشارت ہے حرفِ آخر تک
بشیر بدر کو لاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
بشیر بدر کی غزل:
کہیں نہ چھوڑ کے جاؤ، بڑا اندھیرا ہے
اُداس کر گئے بے ساختہ لطیفے بھی
اب آنسوؤں سے رُلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
کوئی ستارہ نہیں پتھروں کی پلکوں پر
کوئی چراغ جلاؤ، بڑااندھیرا ہے
حقیقتوں میں زمانے بہت گزار چکے
... کوئی کہانی سناؤ ، بڑا اندھیرا ہے
کتابیں کیسی اٹھا لائے میکدے والے
غزل کے جام اٹھاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
غزل میں جس کی ہمیشہ چراغ جلتے ہیں
اسے کہیں سے بلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
وہ چاندنی کی بشارت ہے حرفِ آخر تک
بشیر بدر کو لاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
بشیر بدر کی غزل:
0 comments:
Post a Comment