28 Jul 2016 | By:

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہوگئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بیکسی سے ہم
ہم سے نہ بولو تم اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجئے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم
بے زار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم
اس کو میں جا مریں گے مدد اے ہجوم شوق
آج اور زور کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم
صاحب نے اس غلام کو آزاد کردیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم
بے روئے مثل ابر نہ نکلا غبار دل
کہتے تھے ان کو برق تبسم ہنسی سے ہم
ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خار راہ غیر
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم
کیا گل کھلے گا دیکھئے، ہے فصل گل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم
منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھا
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم
ہے چھیڑ اختلاط بھی غیروں کے سامنے
ہنسنے کے بدلے روئیں نہ کیوں گدگدی سے ہم
وحشت ہے عشق پردہ نشیں میں دم بکا
منہ ڈھانکتے ہیں پردۂ چشم پری سے ہم
کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
(مومن خان مومن)


محبت بوڑھی نہیں ھوتی


سنو ..!!
محبت بوڑھی نہیں ھوتی
انسان بوڑھے ھو جاتے ہیں
ہر لمحہ اسکی تمازتوں میں
پگھلنا کا جنوں بڑتا رہتا ھے
دوری بے معنی ھو جاتی
محبت جب سوچوں پہ چھا جاتی ھے
جسم و روح جب یاد یار میں محو زکر ھو جاتے ہیں ..
سنو محبت مٹتی نہیں ھے
بڑھتی ھے
ہر گزرتے پل
قرب کی، وصال خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں
پہلو یار میں بیٹھے
سرگوشیوں کی خواہش
لمس کا احساس .. جذبوں کو ماند نہیں پڑنے دیتا..
سنو ..!!
محبت بوڑھی نہیں ھوتی ..!!!

محبت بوڑھی نہیں ھوتی


  1. سنو ..!!
    محبت بوڑھی نہیں ھوتی
    انسان بوڑھے ھو جاتے ہیں
    ہر لمحہ اسکی تمازتوں میں 
    پگھلنا کا جنوں بڑتا رہتا ھے
    دوری بے معنی ھو جاتی 
    محبت جب سوچوں پہ چھا جاتی ھے
    جسم و روح جب یاد یار میں محو زکر ھو جاتے ہیں ..
    سنو محبت مٹتی نہیں ھے
    بڑھتی ھے 
    ہر گزرتے پل
    قرب کی، وصال خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں
    پہلو یار میں بیٹھے
    سرگوشیوں کی خواہش
    لمس کا احساس .. جذبوں کو ماند نہیں پڑنے دیتا..
    سنو ..!!
    محبت بوڑھی نہیں ھوتی ..!!!

میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو


  1. میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہومجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
    دن ایک ستم، ایک ستم رات کرو ہو
    وہ دوست ہو، دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
    ہم خاک نشیں، تم سخن آرائے سرِ بام
    پاس آ کے ملو، دُور سے کیا بات کرو ہو
    ہم کو جو ملا ہے وہ تمھیں سے تو ملا ہے
    ہم اور بھُلا دیں تمھیں، کیا بات کرو ہو
    یوں تو ہمیں منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
    جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
    دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
    تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
    بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے، بکے ہے
    دیوانہ ہے، دیوانے سے کیا بات کرو ہو
    (ڈاکٹر کلیم عاجز)