29 Jun 2013 | By:

بہادر شاہ ظفر ---ایسا کچھ دیکھا کہ دنیا سے میرا دل اٹھ گیا





  1. بیچ میں پردہ دوئی کا تھا جو حائل ، اٹھ گیا
    ایسا کچھ دیکھا کہ دنیا سے میرا دل اٹھ گیا

    شمع نے رو رو کے کاٹی رات سولی پر تمام
    شب کو جو محفل سے تو اے زیب ِمحفل اٹھ گیا

    میری آنکھوں میں سمایا اس کا ایسا نور حق
    شوق ِنظارہ ترا اے بدر ِکامل اٹھ گیا

    اے ظفر کیا پوچھتا ہے بے گناہ و بر گناہ
    اٹھ گیا اب تو جدھر کو دست ِقاتل اٹھ گیا

بہادر شاہ ظفر--- یہی ایک غم ہے ، یہی اک الم ہے

  1. یہی ایک غم ہے، یہی اک الم ہے
    یہی اک الم ہے، یہی ایک غم ہے

    مری چشم نم ہے اسی رنج و غم میں
    اسی رنج و غم میں مری چشم نم ہے

    مجھے دم بدم ہے یہی اک تردد
    یہی اک تردد مجھے دم بدم ہے

    خفا کیوں صنم ہے نہیں بھید کھلتا
    نہیں بھید کھلتا خفا کیوں صنم ہے

    خدا کی قسم ہے یہ کہتا ہوں سچ میں
    یہ کہتا ہوں سچ میں خدا کی قسم ہے

    ستم ہی کرم ہے مجھے اس صنم کا
    مجھے اس صنم کا ستم ہی کرم ہے

    ظفر کیا ستم ہے ہوا دوست دشمن
    ہوا دوست دشمن ظفر کیا ستم ہے 

کی وفا ہم سے تو غیر اُس کو جفا کہتے ہیں


  1. کی وفا ہم سے تو غیر اُس کو جفا کہتے ہیں
    ہوتی آئی ہے کہ اچّھوں کو بُرا کہتے ہیں

    آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر اُن سے
    کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں

    اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، اِنھیں کچھ نہ کہو
    جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں

    دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
    اور پھر کون سے نالے کو رسَا کہتے ہیں؟

    ہے پرے سرحدِ ادراک سے، اپنا مسجود
    قبلے کو، اہلِ نظر، قبلہ نُما کہتے ہیں

    پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
    خارِ رہ کو تِرے ہم مِہرِ گیا کہتے ہیں

    اِک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائیگا کیا
    آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہَوا کہتے ہیں

    دیکھیے، لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
    اُس کی ہر بات پہ ہم نامِ خُدا کہتے ہیں

    وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
    مر گیا غالبِ آشفتہ نوا، کہتے ہیں

    مرزا غالب 

میں تاں پتھر گلدے ویکھے۔۔۔۔۔

میں تاں پتھر گلدے ویکھے۔۔۔۔۔

چڑھدے سورج ڈھلدے ویکھے

بجھدے دیوے بلدے ویکھے

ہیرے دا کوئی مُل نہ تارے

کھوٹے سکے چلدے ویکھے

جنھاں دا نہ جگ تے کوئی

او وی پُتر پَلدے ویکھے

اوہدی رحمت دے نال بندے

پانی اُتے چلدے ویکھے

لوکی کیہندے دال نہ گلدی

میں تاں پتھر گلدے ویکھے






ضمیر مرتا ہے احساس کی خاموشی سے



ضمیر مرتا ہے احساس کی خاموشی سے
یہ وہ وفات ہے جس کی خبر نہیں ہوتی....
28 Jun 2013 | By:

یہ پُھول یہ پرند یہ گھر چھوڑ جاؤں گی

یہ پُھول یہ پرند یہ گھر چھوڑ جاؤں گی
لیکن میں سب میں اپنا اثر چھوڑ جاؤں گی

رختِ سفر میں رکھوں گی بس تیرے جستجو
باقی ہر ایک چیز اِدھر چھوڑ جاؤں گی

لگتا ہے میں بھی سایۂ دیوار کی طرح
اک روز دن ڈھلے یہ نگر چھوڑ جاؤں گی

بچّوں کی طرح پالا ہے تیرے خیال کو
میں سوچتی ہوں اس کو کدھر چھوڑ جاؤں گی

میں وہ نہیں کہ موت سے مل کر نہ آسکوں
میں اپنے لوٹنے کی خبر چھوڑ جاؤں گی

ترسیں گے پھر یہ لوگ میرے شور کو قمر
چڑیوں کی طرح میں بھی شجر چھوڑ جاؤں گی





27 Jun 2013 | By:

ٹھہری ٹھہری ہوئی طبیعت میں روانی آئی

ٹھہری ٹھہری ہوئی طبیعت میں روانی آئی
آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی

آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی

مدّتوں بعد چلا اُن پہ ہمارا جادو
مدّتوں بعد ہمیں بات بنانی آئی

مدّتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے
مدّتوں بعد ہمیں پیاس چُھپانی آئی

مدّتوں بعد کھُلی وسعتِ صحرا ہم پر
مدّتوں بعد ہمیں خاک اُڑانی آئی

مدّتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل
مدّتوں بعد ہمیں نیند سُہانی آئی

اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت
ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی

وہ سب چیزیں کبھی اس شخص کی زندگی کا حصہ تھی

وہ سب چیزیں کبھی اس شخص کی زندگی کا حصہ تھیں جسے وہ اپنے وجود کا ایک حصہ سمجھتی تھی۔
ان سب چیزوں پر اس شخص کے ہاتھوں کا لمس تھا جسے اس نے دنیا میں سب سے زیادہ چاہا تھا- عمر جہانگیر ختم ہوچکا تھا- سامنے پڑا ہوا موبائل فون اب کبھی بھی عمر کے ساتھ اس کا رابطہ نہیں کروا سکتا تھا۔ اس نے وہیں بیٹھ کر ٹیبل پر اپنا سر ٹکا دیا اور مٹھیاں بھینچ کر روتی چلی گئی۔
"میں نے کبھی اس یہ نہیں کہا تھا کہ وہ اس طرح چلا جائے۔ " وہ بے تحاشا رو رہی تھی، بچوں کی طرح، جنونی انداز میں۔
اس لمحے اس پر پہلی بار انکشاف ہوا تھا کہ اسے عمر سے کبھی نفرت نہیں ہوئی تھی۔ وہ عمر سے نفرت کر ہی نہیں سکتی تھی، صرف ایک دھوکا اور فریب تھا جو وہ اپنے آپ کو دے رہی تھی، صرف اس خواہش اور امید پر کہ شاید کبھی اسے عمر سے نفرت ہوجائے۔
کبھی۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔ شاید کبھی۔۔۔۔!

(اقتباس: عمیرہ احمد کے ناول "امر بیل" سے)
26 Jun 2013 | By:
25 Jun 2013 | By:

First Joint Venture 2013 Designings

 4 forums ..First Joint Venture Designing competition
urdudesigner-pegham-sachiidosti-urdushanas
host--Urdudesigner

JV2=Next Host will be www.pegham.com
























24 Jun 2013 | By:

ummed tarapti rehti hai


عجب اک جستجو ہے زندگی میں




عجب اک جستجو ہے زندگی میں

اسی کو اڈھونڈتا ہوں ہر کسی میں

ایک بار بہلول کسی نخلستان میں تشریف رکھتے تھے

ایک بار بہلول کسی نخلستان میں تشریف رکھتے تھے۔ ایک تاجر کا وہاں سے گذر ہوا۔ وہ آپ کے پاس آیا سلام کر کے مودب سامنے بیٹھ گیا اور انتہائی ادب سے گذارش کی '' حضور ! تجارت کی کونسی ایسی جنس خریدوں جس میں بہت نفع ہو' جناب بہلول نےفرمایا ' کالا کپڑا لے لو' تاجر نے شکریہ ادا کیا اور الٹے قدموں چلتا واپس چلاگیا۔ 
جا کر اس نے علاقے میں دستیاب تمام سیاہ کپڑا خرید لیا۔ 
کچھ دنوں بعد شہر کا بہت بڑا آدمی انتقال کر گیا۔
ماتمی لباس کے لئے سارا شہر سیاہ کپڑے کی تلاش میں نکل کھڑا ھوا، اب کپڑا سارا اس تاجر کے پاس ذخیرہ تھا تو اب اس نے منہ مانگے داموں فروخت کیا اور اتنا نفع کمایا جتنا ساری زندگی نہ کمایا تھا اور بہت ہی امیر کبیر ہو گیا۔
کچھ عرصے بعد وہ گھوڑے پر سوار کہیں سے گذرا بہلول وہاں تشریف رکھتے تھے۔
وہ وہیں گھوڑے پر بیٹھے بولا ' او دیوانے ! اب کی بار کیا لوں' بہلول نے فرمایا ' تربوز لے لو'۔ وہ بھاگا بھاگا گیا اور اپنی ساری دولت لگا کر پورے ملک سے تربوز خرید کر ذخیرہ کرلئے۔ اب وہ انتظار کرنے لگا کہ کب لوگ اس سے تربوز خریدنے کے لیے آتے ہیں لیکن وقت گزرنے لگا اور کوئی بھی تربوز لینے کے لیے نہ آیا ۔چند ہی دن بعد اس کے سب کے سب تربوز خراب ہو گئے اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا۔
اسی خستہ حالی میں گھومتے پھرتے اس کی ملاقات بہلول سے ہوگئی تو اس نے کہا ' یہ آپ نے میرے ساتھ کیا کِیا؟' تو جناب بہلول نے فرمایا ' میں نے نہیں، تیرے لہجے اور الفاظ نے کیا سب۔ جب تو نے ادب سے پوچھا تو مالا مال ھوگیا اور جب گستاخی کی تو کنگال ہو گیا'

کسی نے سچ کہا ہے کہ باادب با نصیب،بے ادب بے نصیب
.
ماخوذ حکایت۔۔۔۔۔

توں نندر ھانویں ، بے نندر اساں ،


توں نندر ھانویں ، بے نندر اساں ،



چوکاٹھ جناب دا چم گۓ ھیں



تیکوں خوابیں وچ مصروف ڈٹھے



تھی اپڑیں آپ اچ گم گۓ ھیں



تیکوں خواب دی کیا تعبیر ڈساں



بہوں رات پرے تائنیں گھم گۓ ھیں



تیڈی یاد اچ تارے گنڑدیں ھوئیں



سجھ ساتھ ڈتے اساں سم گۓ ھیں

خلیفہ ہارون رشید بڑے حاضر دماغ تھے

(((عجیب واقعہ)))
خلیفہ ہارون رشید بڑے حاضر دماغ تھے ۔۔۔۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا۔۔۔۔
“ آپ کبھی کسی کی بات پر لاجواب بھی ہوئے ہیں؟“

انہون نے کہا۔۔۔“ تین مرتبہ ایسا ہوا کہ میں لاجواب ہوگیا۔۔
ایک مرتبہ ایک عورت کا بیٹا مرگیا اور وہ رونے لگی ۔۔۔میں نے اس سے کہا کہ آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں اورغم نہ کریں۔۔۔۔اس نے کہا کہ میں اس بیٹے کے مرنے پر کیوں نہ آنسو بہاؤں ۔۔۔۔ جس کے بدلے خلیفہ میرا بیٹا بن گ
یا۔“
دوسری مرتبہ مصر میں کسی شخص نے حضرت موسیّ ہونے کا دعوی کیا ۔۔۔ میں نے اسے بُلوا کر کہا کہ حضرت موسی علیہ السلام کے پاس تو اللہ تعالی کے دئیے معجزات تھے ۔۔۔ اگر تو موسی ہے کوئی معجزہ دکھا۔۔۔ اس نے جواب دیا کہ موسیّ نےتو اس وقت معجزہ دکھایا تھا۔۔۔ جب فرعون نے خدائی کا دعوی کیاتھا، تو بھی یہ دعوی کر تو میں معجزہ دکھاؤں گا۔۔۔“
“تیسری مرتبہ لوگ ایک گورنرکی غفلت اور کاہلی کی شکایت لے کر آئے ۔۔۔ میں نے کہا کہ وہ شخص تو بہت نیک ۔۔۔ شریف ۔۔۔ اور ایماندار ہے ۔انہوں نے جواب دیا کہ پھر آپ اپنی جگہ اسے خلیفہ بنادیں تاکہ اس کا فائدہ سب کو پہنچے۔“
23 Jun 2013 | By:

اوکھے پینڈے لمیاں نے راہواں عشق دیاں ...

اوکھے پینڈے لمیاں نے راہواں عشق دیاں ...


درد جگر سخت سزاواں عشق دیاں..

تیری ہر بات مان لیتا ہوں

تیری ہر بات مان لیتا ہوں 


یہ بھی انداز ہے شکایت کا

تُـم مـوم کا اک محــل بنانـے تـو لگـے ہـو،


تُـم مـوم کا اک محــل بنانـے تـو لگـے ہـو،



سورج بھی نکلتا ہے ادھر ذہن میں رکھنا،

میں تیرا ساتھ بھی تو عُمر بھر کا چاہتا تھا

میں تیرا ساتھ بھی تو عُمر بھر کا چاہتا تھا



سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

ساری دنیا اداس پاؤ گے


ساری دنیا اداس پاؤ گے




مجھ سے توڑے جو سلسلے تم نے



ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ

ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ
ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ،، ﻟﯿﮑﻦ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺐ ﻭﮦ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﻣﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻗﺮﯾﺐ
ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔

کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے.

شیخ کا تصور انسان کے دل سے ہر نقش محو کر دیتا ہے ،
سب پریشانیاں دور کر دیتا ہے،
یہ ایسا تصور ہے جو باقی ہر تصور سے آزاد کر دیتا ہے،محو کر دیتا ہے، نہ کوئی خیال ہے اور نہ کوئی وہم.
نہ ہونا ہے اور نہ 'ناں' ہونا ہے ،
وہ جگر نے کہا ہے کہ :
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا...
.
.
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے.
(واصف علں واصف رحمتہ اللہ علیہ)

ایک مرتبہ ایک نہایت ہی حسین وجمیل اور پاکباز عورت

ایک مرتبہ ایک نہایت ہی حسین وجمیل اور پاکباز عورت حضرت بایزید رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اُن سے شکایت کی کہ میرا خاوند دوسری شادی کرنا چاھتا ھے - اسلیے آپ مجھے ایسا تعویذ دیں یا اس طرح دُ عا مانگیں کہ وہ اپنے اس ارادے سےباز آجائے
حضرت نے فرمایا-"بہن! جب اللہ تعالی نے مرد کو استطاعت ہونے پر چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دی ھے تو پھر میں کون ہوتا ھوں جو قانون خُداوندی میں در آؤں اور حکم خُداوندی کی خلاف ورزی کا ذریعہ بنوں "
اس پر وہ خاتون بہت دل برداشتہ ہوئی اور حضرت کی بارگاہ میں عرض کیا "حضرت! میں پردہ میں ھوں اور شریعت اجازت نہیں دیتی کہ میں آپ پر اپنا چہرہ ظاہر کروں ، اگر شریعت اجازت دیتی اور میں آپ پراپنا حسن و جمال ظاہر کرسکتی پھر آپ فیصلہ فرماتے کہ آیا میرے خاوند کو سوکن لانے کا حق حاصل ھے یا نہیں ؟
یہ جواب سُننا تھا کہ حضرت تڑپ اُٹھے اور بے ہوش ھوگئے - ہوش آنے پر فرمایا -دیکھو! یہ ایک خاتون جس کا حسن وجمال قطعی فانی اور محض عطیہ خداوندی ہے ، اپنے حسن وجمال پراس قدر نازاں ہے کہ اس پر سوکن لانا پسند نہیں کرتی اور اپنی توہین سمجھتی ھے
تو وہ رب ذوالجلال اور خالق کائنات جو حسن وجمال کا خالق اور ساری کائنات کا خالق ھے کیونکر گوارہ کرسکتا ھے کہ مخلوق کسی کو اسکا شریک ٹہرائے-

henna---257,270

















جو خواہش اللہ کی رضا پر قربان ہو،



جو خواہش اللہ کی رضا پر قربان ہو،



اگر وہ پوری ہو جائے تب سکون ھے،



پوری نہ ہو تب سکون ہے.



)واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ(

محبت کبهی فنا نهیں هوتی

وه دل ،جس میں محبت گهر کرے، وه پهولوں کی بستی اجاڑنے والے اسے خواه کتنا هی اجاڑ لیں وه سدا مهکتی رهتی هے.



کیونکه  محبت کبهی فنا نهیں هوتی

انھیں خدمتوں کی برکت سے یہ مراتب مجھے حاصل

حضرت بایزید بسطامی رحمتہ الله علیہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جتنے بھی مراتب حاصل ہوئے سب والدہ کی اطاعت سے حاصل ہوئے -ایک مرتبہ میری والدہ نے رات کو پانی مانگا لیکن اتفاق سے اس رات گھر میں پانی نہیں تھا -چنانچہ میں گھڑا لے کر نہر سے پانی لایا - میری آمد و رفت کی تاخیر کی واضح سے والدہ کو نیند آ گئی اور میں رات بھر پانی لیے کھڑا رہا - حتی ٰ کہ شدید سردی کی وجہ سے وہ پانی پیالے میں منجمد ہوگیا اور جب والدہ کی بیداری کے بعد میں نے انھیں پانی پیش کیا تو انھوں نے فرمایا تم نے پانی رکھ دیا ہوتا اتنی دیر کھڑے رہنے کی کیا ضرورت تھی - میں نے عرض کیا محض اسلئے کھڑا رہا کہ مبادا آپ کہیں بیدار ہو کر پانی نہ پی پائیں اور آپ کو تکلیف پہنچے - یہ سن کر انھوں نے مجھے دعائیں دیں..
اسی طرح ایک رات والدہ نے فرمایا کہدروازے کا ایک پٹ کھول دو - لیکن میں رات بھر اس پریشانی میں کھڑا رہا کہ نہ معلوم داہنا پٹ کھولوں یا بایاں - کیونکہ اگر ان کی مرضی کےخلاف پٹ کھل گیا تو حکم عدولی میں شمار ہوگا - چانچہ انھیں خدمتوں کی برکت سے یہ مراتب مجھے حاصل ہوئے -
- شیخ فرید الدین عطار - تذکرہ اولیاء