26 Sept 2014 | By:

عشره ذوالحجة



عشره ذوالحجة
-----------🌿--------
کسی بھی دن کیا ہوا عمل
الله کو ان دس دنوں میں کۓ
عمل سے زیادە محبوب نہیں ہے. 
سنن ابوداود
---------------------------------
. یوم عرفہ9 ذي الحج
کا روزە گذشتہ و آئندە
سال کے گناہوں کا کفارە ہے
صحيح مسلم
----------🌿🌿------------
الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله
والله اكبر الله اكبر و لله الحمد
سبحان الله و الحمد الله ولا اله الا الله والله اكبر
کثرت سے پڑھیں
25 Sept 2014 | By:

maire ustad maire dost maire bazurg

maire ustad maire dost maire bazurg




میرے استاد میرے دوست میرے بزرگ



مجھ سے پوچھا گیا‘ کہ آپ نے زندگی میں‘ کن کن اساتذہ سے علمی استفادہ کیا ہے۔ 
وقت‘ حالات‘ حاجات اور حضرت بےغم صاحب سے بڑھ کر‘ آدمی کس سے سیکھ سکتا ہے۔ 
سوال کرنے والے کی‘ اس سے تشفی نہ ہوئی۔ شاید ہر چہار کی استادی کو‘ وہ ناقص سمجھتے ہوں گے۔ حضرت بےغم صاحب تو میری زندگی میں ١٩٧٢ میں آئیں‘ اور پھر مسلسل اور متواتر آتی ہی چلی گیئں۔ ان کے مزید آنے کے امکان کو رد نہ کیا جائے۔ ان سے پہلے بھی تو لکھتا پڑھتا تھا۔ اپنی رائے کا اظہار کرتا تھا۔ اس لیے لامحالہ ١٩٧٢ سے پہلے بھی تو میری زندگی میں استاد آئے ہوں گے۔ 
یہ کوئی ١٩٥٨ کی بات ہو گی‘ والد صاحب مرحوم جو میرے پیر و مرشد بھی تھے‘ سکول چلے آئے اور ماسٹر صاحب سے میری تعلیمی حالت پوچھی۔ 
دراز قامت کے ماسٹر صاحب نے‘ بلامروت جواب میں ارشاد فرمایا: خلیفہ ہے۔

کہنے کو تو وہ یہ کہہ گیے‘ لیکن میری حالت مت پوچھیے۔ قبلہ گاہ تو چپ چاپ چلے گیے۔ جواب میں کیا کہتے۔ میرا خیال تھا‘ کہ آج خیر نہیں۔ خوب مرمت کریں گے۔ شام کو‘ جب وہ گھر تشریف لائے‘ میرا خون خشک ہو گیا۔ معاملے کا نتیجہ میرے اندازے سے قطعی برعکس نکلا۔ مجھے پاس بٹھایا‘ پیار کیا۔ جیب سے ٹانگر نکال کر‘ کھانے کو دیے۔ صبح کی بات‘ مجھے نہ جتائی‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس دن کے بعد‘ میرے ساتھ خصوصی شفقت فرمانے لگے۔ مجھے اپنے ساتھ ساتھ رکھتے۔ بیٹھک میں کوئی آ جاتا‘ تو پاس بٹھا لیتے۔ باتیں کرتے‘ گلستان سے کہاوتیں سناتے۔ میں ان کے ساتھ سونے لگا۔ پڑھنے‘ یا کتابیں لے کر آنے کو‘ کبھی نہ کہا۔ بڑوں کی محفل میں بیٹھنا‘ مجھے اچھا لگتا۔ پہلے سنتا تھا۔ پھر میرے قبلہ گاہ نے‘ سوال کرنے کی عادت ڈالی۔ جہاں الجھتا‘ سوال کرتا۔ میں اپنے قبلہ گاہ کے ساتھ رہتے ہوئے‘ بڑوں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتا۔ بڑے مجھ سے سوال بھی کرتے‘ میں ان کے سوال کا اعتماد سے جواب دیتا۔ جواب غلط ہوتا یا صحیح‘ کچھ یاد نہیں۔ انہوں نے منع کیا تھا‘ کہ کسی بھی آنے والے سے‘ اس کے اصرار کے باوجود‘ کچھ لینا نہیں۔ ہاں مجھ سے مانگنے میں‘ تکلف نہ کرنا۔ مزے کی بات‘ وہ میری ہر ضرورت کو بھانپ لیتے‘ اور مجھے مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

گھر کے حالات بہتر نہ تھے‘ میٹرک کا امتحان دینے کے فورا بعد‘ انہوں نے مجھے لائل پور موجودہ فیصل آباد میں‘ اپنے ایک دوست کے توسط سے‘ اقبال ٹرانسپورٹ میں ملازمت دلوا دی۔ وہاں محمد حسن بخاری بھی ملازم تھے۔ موصوف‘ ساٹھ سال کی عمر سے زیادہ تھے۔ بڑے شفیق اور مہربان تھے۔ مجھے لکھنے‘ پڑھنے اور دریافت کرنے کی عادت تھی۔ وہ میری حوصلہ افزائی فرماتے۔ انہوں نے میری تحریروں پر لکھا بھی‘ جو آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ کتابت شدہ مسودہ بھی کہیں ناکہیں پڑا ہو گا۔ پرچم نام کا ایک مقامی رسالہ شائع ہوتا تھا۔ میں اس رسالے کا نمائندہ بن گیا۔ بعد ازاں‘ اقبال ٹرانسپورٹ سے ملازمت چھوز کر‘ چناب ٹرانسپورٹ میں آ گیا۔ یہاں بھی میرا پالا ساٹھ سال کی عمر سے زائد شخص کے ساتھ پڑا۔ ان کے ساتھ کچھ زیادہ وقت نہ رہا‘ تاہم جتنا عرصہ رہا‘ سہراب صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ سہراب صاحب بڑے سخت اور اصول پرست آدمی تھے۔ غلطی پر درگزر کرنے کی بجائے‘ ڈانٹ پلاتے۔ اس وقت تو برا لگتا تھا‘ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی ڈانٹ بڑے کام کی چیز تھی۔

میٹرک کے رزلٹ کی اطلاع‘ میرے قبلہ گاہ نے دی۔ میڑک میں کامیابی حاصل کر لینا‘ میرے لیے بڑی معنویت کی بات تھی‘ اور مجھے یقین ہو گیا‘ کہ اب میں خلیفہ نہیں رہا۔ قبلہ گاہ نے‘ بزگوں کی محفل میں بیٹھنے کی عادت ڈال دی تھی۔ مجھے اپنی عمر کے لڑکوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا‘ خوش نہیں آتا تھا۔ شاید میں نویں جماعت میں تھا‘ میرے قبلہ گاہ نے یہ بات میرے دل و دماغ میں باندھ دی تھی‘ کہ اگر زندگی میں کچھ کرنا ہے‘ تو کسی لڑکی سے عشق نہیں کرنا۔ اگر عشق کرنا ہے‘ تو الله سے کرو‘ الله باقی رہنے والا ہے‘ تم بھی باقی رہو گے۔ میں ناچیز الله سے عشق کے کب قابل تھا‘ ہاں کسی خاتون کے عشق کے منہ نہ لگا۔ ہو سکتا ہے‘ میں کسی خاتون کی پسند کے قابل نہ تھا۔ کسی خاتون کو پسند کرنے کے لیے‘ میرے پاس وقت ہی نہ تھا۔ ہاں خواتین سے نفرت بھی نہ تھی۔ حضرت والدہ ماجدہ سے عشق کرتا تھا۔ چھوٹی بہن نصرت شگفتہ‘ میری پسندیدہ سہیلی تھی۔ ہم دونوں آپس میں خوب موج مستی کرتے‘ تاہم ہمارے باہمی شور شرابے اور کھیل کود سے‘ گھر کے دوسرے لوگ ڈسٹرب نہ ہوتے تھے۔ ہم اپنے منہ کا لقمہ‘ ایک دوسرے کو کھلا کر‘ خوشی محسوس کرتے۔

میرے قبلہ گاہ کے‘ فوج میں کوئی صاحب واقف تھے۔ میں اے ایم سی میں‘ باطور نرسنگ اسسٹنٹ بھرتی ہو گیا۔ ٹرینگ کے بعد‘ سی ایم ایچ کھاریاں آ گیا۔ وہاں سے‘ کچھ عرصہ بعد‘ سی ایم ایچ حیدرآباد تبادلہ ہو گیا۔ سی ایم ایچ حیدرآباد میں‘ شگفتہ لاہوتی باطور پینٹر ملازم تھے۔ ان کے پاس‘ شہر کے شاعر ادیب آتے رہتے تھے۔ بزرگ وضع دار اور خوش گو تھے یہ ہی وجہ ہے‘ کہ سب ان کی عزت کرتے تھے۔آنے والے انہیں استاد مانتے تھے۔ میں ان کے ہاں تقریبا روزانہ جاتا۔ جب جاتا‘ کوئی ناکوئی آیا ہوتا اور اپنا کلام سنا رہا ہوتا۔ اس طرح میں بھی آنے والے کے کلام سے لطفف اندواز ہوتا۔ مجھے ان کے اصلاح کے اطوار سے بھی آگاہی ہوتی۔ دو تین بار مجھے اکیلے میں ملنے کا اتفاق ہوا۔ بڑی شفقت سے‘ کلام کی اصلاح کی اور اصلاح شدہ کلام دو تین بار مجھ سے سنا۔ کسی اگلی نشت میں‘ جب پانچ سات لوگ آئے ہوتے مجھ سے کلام سنانے کی فرمائش کرتے۔ میں وہ ہی اصلاح شدہ کلام‘ سنا دیتا۔ دل کھول کر داد دیتے۔ اس طرح محفل میں سنانے کی عادت پڑ گئی۔ رائی بھر جھجھک محسوس نہ ہوتی۔ یہاں ہی‘ حیدرآباد کے معروف صحافی افسانہ نگار احمد ریاض نسیم سے ملاقات ہوئی‘ جو برسوں چلی۔

حیدرآباد سے میرا تبادلہ‘ سی ایم اییچ بہاول پور ہو گیا۔ یہاں مجھے ایک جاروب کش سے ملاقات کا موقع ملا‘ اور میں نے ان سے زندگی کا حقیقی چلن سیکھا۔ ان سے ملنے کے لیے‘ مجھے تھوڑا اوپر سے آنا پڑتا تھا تاہم‘ میں ان سے ملے بغیر‘ ڈیوٹی پر نہ جاتا تھا۔ ہماری ملاقات فقط ایک لمحے کی ہوتی۔ میں چلتے چلتے ان سے پوچھتا: کیا حال ہے سائیں بادشاہ 
جواب میں‘ وہ جھاڑو زمین پر رکھ دیتے‘ اور ہاتھ جوڑ کر فرماتے: نئیں باباجی‘ میں نئیں الله بادشاہ
یہ سن کر میں آگے بڑھ جاتا۔ اس کلمے سے مجھے قلبی سکون میسر آتا۔

١٩٧٢
میں‘ میری شادی زیب النسا سے کر دی گئی۔ وہ مر گئی ہے‘ اور میں نے مرنا ہے‘ سچی بات تو یہ ہے کہ مرحومہ بڑی صابر‘ قناعت پسند اور شفیق عورت تھی۔ ان پڑھ تھی‘ لیکن عادت کے حوالہ سے‘ پڑھے لکھوں سے‘ کہیں بڑھ کر تھی۔ عمر زیادہ ہونے کے باعث‘ ابتدا میں میرا رویہ بہتر نہ رہا لیکن وہ سب بڑے حوصلے سے‘ برداشت کر جاتی۔ ایک دن میں نے سوچا‘ اس میں اس بےچاری کا کیا قصور ہے۔ میں نے خود کو یکسر بدل دیا۔ الله نے عنایت فرمائی‘ ہمیں چاند سا بیٹا‘ سید کنور عباس عطا کیا۔ پھر تو سب کچھ ہی بدل گیا۔ اس کے بعد‘ زیب النسا مجھے دنیا کی سب سے پیاری عورت محسوس ہونے لگی۔ میں یہ تسلیم کرنے میں قطعی شرمندگی محسوس نہیں کرتا‘ عجز انکسار اور برداشت کا مادہ‘ زیب النسا سے ملا۔ الله اسے‘ قبر میں کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے۔


شاید ہی کوئی دن ہو گا‘ جس دن میں نے کچھ پڑھا یا لکھا نہ ہو گا۔ بیماری کی حالت میں بھی‘ یہ شغل خیر جاری رکھتا۔ دوستوں سے ملاقات رہتی‘ تو بھی کوئی ناکوئی معاملہ گفتگو میں رہتا۔ رسائل میں چھپنے کے باعث‘ بہت سے اہل قلم سے میرا رابطہ ہو گیا۔ احمد ریاض نسیم سے میرا قلمی رابطہ تو تھا ہی‘ اعظم یاد جو ١٩٥٩ سے لکھ رہے تھے‘ خط و کتابت رہی۔ اس دور میں بڑا مانا ہوا نام تھا۔ ملک شاہ سوار ناصر‘ ایم اے علی‘ کوکب مظہر خاں وغیرہ خط و کتابت میں آ گیے۔

میرے قبلہ گاہ کا اصرار تھا‘ کہ میں مزید پڑھوں۔ ان کی ہدایت اور نصیحت پر‘ میں نے پڑھنا شروع کیا۔ کالج کا پروفیسر ہونا‘ ان کا خواب تھا‘ اور یہ خواب ان کی زندگی ہی میں‘ ١٩٨٥ کو شرمندہءتعبیر ہوا۔ انہوں نے ١٩٨٨ میں پردہ فرمایا‘ اور خلد نشین ہوئے۔ 

میری پہلی تقرری‘ گورنمنٹ کالج نارنگ منڈی ہوئی۔ وہاں پروفیسر امانت علی‘ پروفیسر مشتاق راحت‘ ڈاکٹر قیس اسلم‘ پروفیسر انور خاں اور پروفیسر رفیق مغل جیسے‘ لوگوں سے ہیلو ہائے ہوئی۔

١٩٨٧میں‘ گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور میں آ گیا۔ پروفیسر ارشاد احمد حقانی‘ صحافتی دورے پر رہتے تھے۔ مجھے بی اے کی تاریخ کا پریڈ دے دیا گیا۔ 

ڈاکٹر صادق جنجوعہ کا تبادلہ لاہور ہو گیا‘ تو ایک عرصہ تک مجھے سال اول سے سال چہارم تک پنجابی پڑھانے کا موقع ملا۔

گویا پنجابی اور تاریخ کے طلبا سے‘ میں نے بہت کچھ سیکھا۔

پروفیسر اکرام ہوشیارپوری‘ پروفیسر علامہ عبدالغفور ظفر‘ پروفیسر ڈاکٹر عطاارحمن اور پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد چودھری‘ میرے دوستوں میں تھے۔ بعد ازاں پروفیسر امجد علی شاکر تشریف لے آئے تو ان سے بھی پیار اور دوستی کا رشتہ استوار ہوا۔

مختلف رسائل میں چھپنے کے سبب‘ اہل قلم سے رابطہ بڑھتا چلا گیا۔ ان میں ڈاکٹر بیدل حیدری‘ ڈاکٹر محمد امین‘ ڈاکٹر اختر شمار ڈاکٹر وفا راشدی‘ ڈاکٹر نجیب جمال‘ ڈاکٹر وقار احمد رضوی‘ ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‘ پروفیسر حفیظ صدیقی‘ ڈاکٹر گوہر نوشاہی‘ ڈاکٹر تبسم کاشمیری‘ تاج پیامی‘ پروفیسر کلیم ضیا‘ ڈاکٹر مظفر عباس‘ ڈاکٹر منیر الدین احمد‘ ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر آغا سہیل‘ ڈاکٹر سید اسعد گیلانی‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری‘ ڈاکٹر قاسم دہلوی‘ مولانا نعیم صدیقی‘ مولانا وصی مظہر ندوی وغیرہم سے قلمی رابطہ رہا۔ 

ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر انیس ناگی اور مبارک احمد‘ کی سرگرمیاں میری توجہ کا مرکز رہیں۔

لاہور فٹ پاتھ پر سے کتابیں خریدنے جاتا تو ڈاکثر سہیل احمد خاں اور ڈاکٹر سید معین الرحمن سے ضرور ملتا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی سے خط و کتابت اور ملاقات بھی رہی۔
ڈاکٹر نور العالم‘ مستقل نمائندہ یو این او صوفی ہیں۔ ان سے میرا محبت اور خلوص کا رشتہ رہا۔ ان کی محبت کا ثمرہ ہے‘ جو میں نے تصوف کے حوالہ سے‘ مضامین لکھے‘ جو
www.scribd.com 
پر موجود ہیں۔
ایمان داری کی بات یہ ہی ہے‘ کہ جہاں حالات اور وقت نے سکھایا‘ وہاں میں نے ان لوگوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ یہ سب میرے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ میں نے جو بھی ناچیز سا کام کیا ہے‘ سب ان کی محبتوں اور عطاوں کا پھل ہے۔ 

سچ پوچھیے‘ تو انار کلی فٹ پاتھ نے بھی‘ مجھے بہت کچھ سکھایا ہے۔

اختر شمار کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔ایک لسانیاتی جائزہ

اختر شمار کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔ایک لسانیاتی جائزہ


یہ بات باور کر لینی چاہیے‘ کہ شخص زبان کے لیے نہیں‘ زبان شخص کے لیے ہوتی ہے۔ جب شخص زبان کا پابند ہو جاتا ہے‘ خیال اور جذبے کے اظہار کے رستے میں‘ دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ کسی ناکسی سطح پر‘ زبان کے اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری ہو جاتی ہے‘ لیکن خیال اور جذبہ‘ اپنی اصلیت برقرار نہیں رکھ پاتے۔ یعنی جو کہنا ہوتا ہے وہ پس پشت پڑ جاتا ہے۔ جو کہنا تھا یا جو کہنے کی ضرورت تھی‘ کہا نہ جا سکا‘ تو سب لاحاصل اور لایعنی ٹھہرے گا۔
دوسری بڑی بات یہ ہے‘ کہ لفظ اپنی ذات میں‘ تفہیمی استحکام نہیں رکھتا۔ جو لوگ لفظ کے تفہیمی استحکام کے قائل ہیں‘ ہر قدم پر‘ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ لغت کچھ ہوتے ہوئے بھی‘ کچھ بھی نہیں۔ اس پر اعتماد‘ گمراہ کرتا ہے۔ اس موضوع پر‘ بڑی تفصیل سے بات کر چکا ہوں۔ نیٹ پر موجود میری کتاب
The language problem
میں مضمون موجود ہے۔ لفظ اپنے متن میں ہی‘ معنویت سے ہم کنار ہوتا ہے۔ استعمال کنندہ کے جذبے اور خیال کو‘ لفظ نے ہر حال اور ہر صورت میں فالو کرنا ہوتا ہے۔ 
تیسری بات یہ کہ لفظ کی زبان کو سمجھے بغیر‘ تفہیم کے امور طے نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں کا عمومی طور یہ ہی رہا ہے‘ کہ ہم لفظ کی بولی سمجھے بغیر‘ تشریح کی طرف بڑھتے ہیں۔ کلام غالب ہو‘ کہ کلام اقبال‘ بازار میں تشریحات کا انبار لگا ہوا ہے۔ ہر کسی نے‘ لفظ کی بولی سمجھے بغیر‘ تھوڑا نہیں‘ بہت کچھ لکھ دیا ہے۔ یہ معاملہ کسی المیے سے بہرطور کم نہیں۔
گلی کا کوئی عام شخص ہو‘ یا صاحب سخن‘ اپنا الگ سے اسلوب رکھتا ہے۔ دونوں کے ہاں طرحداری موجود ہوتی ہے۔ یہ نادانستہ طور ہوتا ہے۔ مکالمے میں تفہیم کی ذیل میں‘ باڈی لنگوئج اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ پس دیوار‘ کہی گئی بات‘ جب کانوں میں پڑتی ہے‘ تو سماعی آلہ متحرک ہوتا ہے‘ ابہام کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔
پس دیوار ایک شخص کہتا ہے‘ آج میں اسے جان سے مار دوں گا۔ 
سننے والا‘ اس بات کو اپنی ذات پر محمول کر سکتا ہے۔ بات گرہ میں تو بندھے گی ہی‘ اس پر طرہ یہ کہ اس ذیل میں‘ کوئی بھی منفی ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ گویا کسی بھی سطح پر‘ سماعی آلے اپنی کارگزاری میں صفر ہو سکتے ہیں۔ حالاں کہ اس نے‘ روزانہ دودھ پی جانے والی بلی کے بارے میں‘ کہا ہوتا ہے۔ بصارتی آلے کی صورت بھی‘ اس سے مماثل ہو سکتی ہے یا ہوتی ہے۔ جو دیکھا گیا ہو‘ ضروری نہیں وہ اسی طرح سے ہو‘ جیسے دیکھا گیا ہوتا ہے۔
کاغذ پر موجود لفظوں کی تفہیم‘ اور بھی مشکل ہوتی ہے۔ لکھی گئی بات کے لہجے کا تعین‘ خود سے کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے‘ اہل سخن کے کہے کی تفہیم‘ لفظوں کی بولی سمجھے بغیر‘ ممکن ہی نہیں۔ اہل سخن عمؤم سے نہیں ہوتے‘ اس لیے ان کے کہے کو‘ سرسری نہیں لیا جا سکتا اور ناہی ان کا کہا‘ عموم کا کہا ہوتا ہے۔ انہیں سمجھنے کے لیے‘ پہلے ان کی زبان سے آگہی ضروری ہے۔ ان کے کہے کا اصل کمال یہ ہوتا ہے‘ کہ ان کے لفظوں کو جس رخ اور جس پہلو سے دیکھو گے‘ تہ در تہ مفاہیم‘ ملتے چلے جائیں گے۔ اگرچہ لمحہءتخلیق تک رسائی ممکن نہیں‘ پھر بھی‘ غور و فکر کے نتیجہ میں بہت کچھ ہاتھ لگ سکتا ہے۔
کسی بڑی بات کو کہنے کے لیے‘ وہ لفظوں کو نیا انداز اور نیا سلیقہ دیتے ہیں۔ لفظ اس طور سے‘ اور ان معنوں میں‘ کبھی استعمال ہی نہیں کیا گیا ہوتا۔ گویا وہ لفظوں کو رواج اور لغت سے ہٹ کر‘ اور اپنی مرضی کے معنی عطا کرتے ہیں۔ کپڑا ایک سا ہی ہوتا ہے‘ لیکن درزی کی ہنرمندی اسے اور ہی پہب دے دیتی ہے۔ وہ پہب‘ بصارتی آلات پر مثبت اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ ہر نئے کے لیے‘ استعمال کا سلیقہ بھی نیا‘ اور الگ سے ہوتا ہے۔ نئے کے لیے مرکبات بھی نئے وجود پکڑیں گے۔
سبھی اہل سخن‘ اپنے اپنے حوالہ سے‘ اردو زبان کے لیے‘ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کو بساط بھر‘ کچھ دیا ہی ہے۔ باہمی رنجش ہو‘ کہ ادبی چپقلس‘ کسی معاملے کا رد عمل ہو‘ کہ ذات کا کرب زبان کو کچھ ناکچھ ملا ضرور ہے۔ اقتداری ہواوں کے مسافروں سے بھی‘ زبان مایوس نہیں ہوئی‘ ہاں‘ ان کی غلط اور اقتداری شہادت نے‘ آتے کل کے لیے‘ مخمصے ضرور چھوڑے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ ان کے کہے کے حوالہ سے‘ تقسیم کا دروازہ ضرور کھلا ہے۔ اقتدار سے دور محروم لوگوں نے‘ اپنے وسیب کے معاملات کو نگاہ میں رکھا ہے۔ سماجی اور اقتداری بےانصافیوں کو‘ لفظوں میں ملفوف کرکے پیش کیا ہے۔ جو بھی سہی‘ زبان کی خدمت ضرور ہوئی ہے۔ سچی گواہیوں کی شاعری کی زبان کو‘ سٹریٹ نے قبولیت کی سند عطا کی ہے۔
عہد قریب کے تین چار لوگ محرومی‘ تلخی‘ بغاوت‘ جدت طرازی اور محبتوں کی مٹھاس کے حوالہ سے
شاید فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ کونے کھدرے میں سہی‘ ان کا نام ضرور باقی رہے گا۔ علامہ بیدل حیدری‘ عصر جدید کی بڑی توانا آواز ہے۔ ان کے ہاں‘ زندگی اپنے ان گنت رنگوں کے ساتھ رقصاں نظر آتی ہے۔ وہ نظم اور غزل کے‘ پختہ کار شاعر تھے۔ بڑے بڑوں کا قلم‘ ان کے قلم کے‘ قدم لیتا نظر آتا ہے۔
اختر حسین جعفری‘ کلاسیکل زبان کو جدید طور سے‘ آشنا کرنے میں‘ اپنا جواب نہیں رکھتے۔ شکیب جلالی کی فکر اپنی جگہ‘ ظالم دہائی کی زبان استعمال کرتا ہے۔ مبارک احمد اور انیس ناگی نے نثری نظم کی زبان کو الگ سے سلیقہ عطا کیا۔ تبسم کاشمیری نے‘ زندگی کو شہد میں ملفوف کرنے کی سعی کی جب کہ سعادت سعید‘ ہمیشہ جدت طرازی کے گھوڑے پر سوار رہے۔
ان سب کی زبان کا مطالعہ کریں‘ تو یہ کہے بغیر بن نہ پائے گی‘ کہ ان اہل سخن نے اردو کو نیا اور انسانی زندگی سے میل کھاتا‘ سلیقہ عطا کیا۔ یہ سب برگد ہیں‘ اور ان کی شاخوں کا شمار‘ مجھ ناچیز طالب علم کے لیے ممکن ہی نہیں۔
عصر رواں میں‘ علامہ بیدل حیدری کے پائے کا‘ شاید ہی کوئی خوش فکر اور خوش زبان شاعر نظر آئے۔ اس برگد کی ایک شاخ پر‘ میری نظر پڑی ہے۔ اس کے کلام کی خوش بو‘ نفیس طبع کے لوگوں کو مسرور کرتی ہے‘ اور کہیں گدگداتی ہے۔ اس کی زبان اور فکر کا سلیقہ ہی الگ سے‘ اور ہٹ کر ہے۔ اس کا کلام پڑھ کر‘ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے‘ کہ وہ اردو زبان کی قدرت اور لچک پذیری سے‘ خوب خوب آگاہ ہے۔ اس نے اپنا الگ سے‘ لسانیاتی اسلوب تشکیل دیا ہے۔ شعری زبان میں‘ اس کا اپنا الگ سے لہجہ ہے۔ اس کا یہ اسلوب اور لہجہ‘ قاری کی توجہ حاصل کرنے میں کمال رکھتا ہے۔ بات کرنے کے لیے‘ اس نے کئی طور اور انداز اختیار کیے ہیں۔
اب میں اس شاخ کی‘ شعری زبان کا مختصر مختصر‘ اور ناچیز سا مطالعہ پیش کرتا ہوں۔ اس مطالعہ سے‘ اس کی زبان دانی کے قد و کاٹھ کا‘ کسی حد تک سہی‘ اندازہ ضرور ہو جائے گا۔
طنز‘ حیرت اور سماجی حقیقت میں ملفوف ذرا یہ سوالیہ انداز ملاحظہ ہو۔
مانگے گا کوئی بھیک ترے شہر میں کیسے
پہلو میں ہر اک شخص کے جب کاسے بندھے ہیں
جہاں اس شعر میں سوال ہے‘ وہاں شاعر کسی سے مخاطب بھی ہے۔ دکھنے میں یہ شعر جتنا سادہ ہے‘ تفہیم میں اتنا طرحدار بھی ہے۔ اس شعر میں لفظ ترے نے‘ اسے بڑا بلیغ بنا دیا ہے۔ اسی قماش کا‘ ایک اور سلگتا ہوا شعر ملاحظہ ہو

کچھ تو بتاؤ کیا کیا راکھ ہوا ہے اور
اور وہ لوگ جو آگ لگانے آئے تھے
کچھ تو بتاؤ
کیا کیا راکھ ہوا ہے
اور
پہلے مصرعے کا اور اتنا سادہ نہیں‘ جتنا نظر آ رہا ہے۔ یہ سوالیہ ہے‘ کچھ تو بتاؤ کیا کیا راکھ ہوا ہے۔۔۔۔ الگ سے سوال ہے۔ دوسرے مصرعے میں‘ اس کی نوعیت بالکل مختلف ہے ۔ بات بھی پہلے مصرعے سے الگ تر ہے۔ اسے اس طور سے دیکھیں
اور وہ لوگ
جو آگ لگانے آئے تھے

شاعر خود کلامی سے بھی کام لیتا ہے۔
کیمرا رکھ کے سامنے خود ہی
اپنی تصویر اس کے ساتھ اتار
اب تخاطب میں لیپٹا‘ استداعیہ انداز ملاحظہ ہو
کر عطا مجھ کو صبر کا مفہوم
پیاس میری لب فرات اتار
تلمیح نے فکر کو اور جاندار بنا دیا ہے۔

فکر کی پرواز اور رفتار کے مطابق‘ رنگ ہاتھ لگتے ہیں۔ ان رنگوں کا استعمال‘ بالکل الگ سے ہنر ہے۔ تصاویر وہ ہی من بھاتی ہیں‘ جو ناصرف خوب صورت ہوں‘ باتیں بھی کرتی ہوں۔ بےجان اور سکوت کا شکار تصاویر‘ لمحہ بھر کو سامنے آتی ہیں‘ اور پھر دل و دماغ سے یکسر محو ہو جاتی ہیں۔ جاگتی بولتی اور باتیں کرتی اور بناتی تصاویر‘ تادیر دل و دماغ میں رقص کرتی ہیں۔ نہیں یقین آتا تو دو منٹ نکالیے‘ اور ان تصاویر کو دیکھیے۔ سرسری نظر‘ ممکن ہے‘ تادیر آپ کو مسرور رکھے۔

تعویز محبت
ممکن ہے اسے کھینچ کے لےآئیں ہوائیں
تعویز محبت سبھی اشار سے باندھو

ٹمٹماتی لو
ٹمٹماتی لو ترا چہرا نظر کے رو بہ رو
مرتے مرتے دیکھتا ہوں زندگانی کی طرف
ہر لفظ ایک دوسرے سے پیوست ہے‘ اور ایک مخصوص ایمیج تشکیل دے رہا ہے‘ یہ چشم تصور سے دیکھنے سے تعلق رکھتا معاملہ ہے۔

آنکھوں کی چمک‘ نگاہوں میں ارادہ
اس بار ان آنکھوں کی چمک میں ہے کوئی دل
اس بار نگاہوں میں ارادہ سا کوئی ہے

یاد کی دھوپ
یاد کی دھوپ میں لرزتا ہے 
ایک سایہ کہیں ردا سا

مستعمل محاوروں کا استعمال‘ کمال کا حسن رکھتا ہے۔ یہ ہی نہیں جدت طرازی کا خوب صورت نمونہ ہوتا ہے۔ باطور ذائقہ دو تین محاوروں کا استعمال ملاحظہ ہو
دل میں اس کو تلاش کر لیکن
پہلے شیشے میں کائنات اتار

کبھی اٹھے گا بھی پردہ دل سے
کبھی نکلے گی یہ دنیا دل سے

بینائی کا خمیازہ نہ پڑ جائے بھگتنا!
ہر خواب نہ یوں حسن طرحدار سے باندھو

یہ کس طرح کے بھلا ہم اسیر ظلمت ہیں
کہ روشنی کی ملاقات بھی نہیں آتی

صنعت تکرار لفظی‘ شاعر بکثرت استعمال کرتا ہے اور اس کے لیے‘ اس نے کئی انداز اختیار کیے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں
سوچتے سوچتے جب سوچ ادھر جاتی ہے
روشنی روشنی ہر سمت بکھر جاتی ہے

رفتہ رفتہ ہی دل تجھ کو بھولے گا
جاتے جاتے ہی یہ رغبت جاتی ہے

دل کی آنکھوں سے اگر دیکھو تو‘ دیکھو ہر سو
ان نظاروں سے الگ ایک نظارہ آباد

میں رہوں یا نہ رہوں یار رہے باقی‘ اور
یار کے ساتھ رہے یار کا قصبہ آباد

دیکھنا اب ہے مسافر کی طرح ہر منظر
میلے میں رہ کے بھی میلے سے الگ رہنا ہے
ہم صوت لفظوں کا استعمال‘ شاعر کی زبان پر قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ صنعت غنا کے حوالہ سے‘ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ مثلا یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں
ہم نے کبھی نہ چیز اٹھائی پڑی ہوئی
قدموں میں تھی اگرچہ خدائی پڑی ہوئی

اٹھیں تو قدم کیسے میں جاؤں تو کہاں جاؤں
ہے آگ مرے آگے تودریا مرے پیچھے

دشت کی پیاس بجھے گی اک روز
کبھی گزرے گا وہ دریا دل سے

روح بھی جھوم اٹھی تھی اس پل
رات گزرا جو وہ تارا دل سے

صنعت تضاد‘ جہاں تقابلی صورت پیدا کرتی ہے‘ وہاں شناخت کا‘ بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس سے عناصر کی اہمیت‘ اور حقیقی قدر کا بھی‘ اندازہ ہوتا ہے۔ اس صنعت کا استعمال‘ بڑی ہنرمندی سے ہوا ہے۔ مثلا
روشنی اور تیرگی میں اک دیا دیوار ہے
اور اس کی راہ میں دیکھو ہوا دیوار ہے

میری صدا پر وہ قریب تو آئے گا
لیکن زیر دام نہیں آنے والا

جاگتے جاگتے ہے نیند بھی پوری کرنی
بھیڑ میں رہ کے بھی چپکے سے الگ رہنا

بچھڑا ہے کون کس سے کوئی جانتا نہیں
ہم تم سے کیا ملے‘ ہے دہائی پڑی ہوئی
متعلقات کا استعمال‘ جہاں وضاحت پیدا کرتا‘ وہاں مفاہیم کے دائرے‘ پھیلانے کا بھی سبب بنتا ہے۔ اس ضمن میں چند نمونہ کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
ساون کی جھڑیاں بھی نوچتی رہتی تھیں
تیرے بن برسات پہ غصہ آتا تھا

میں ایک اشک ندامت تھا اپنی پلکوں پر
کسی نگاہ میں آیا تو آئنہ ٹھہرا

اک لہر مجھے اور طرف کھینچ رہی ہے
جو غرق کیے جائے‘ کنارا سا کوئی ہے

کنارے کا غرق کرنا‘ قطعی متضاد معنی رکھتا ہے۔ اہل سخن کا کمال یہ ہی ہوتا ہے‘ کہ وہ لفظ کو اپنی مرضی کے مفاہیم‘ عطا کرتے ہیں۔

تشبیہ شعر کی جان ہوتی ہے۔ اس کا برمحل اور پرسلیقہ استعمال‘ شعر میں مقناطیسیت بھر دیتا ہے۔ زیر مطالعہ شاعر کی چند تشبیہات دیکھیں۔ کیا طور اور انداز پایا ہے۔
وہ ایک سانس کہ دھڑکن کے ساتھ رک سی گئی
وہ ایک پل کہ بھڑکتا ہوا دیا ٹھہرا

رات گزرا یہ کس گلی سے میں
کیا اندھیرا تھا وہ ضیا کا سا

تیرتے آئیں نظر جس میں ستاروں کے دیے
میری آنکھوں کے کنارے ہے وہ دریا آباد
یہ تشبیہ‘ استعارے کا اترن لیے ہوئے ہے۔
لگے ہاتھوں‘ ان کے دو تین مرکبات بھی ملاحظہ فرما لیں:

عکس یقین
پڑا ہے شیشہءدل پر تمہارا عکس یقین
ملے ہیں پہلے کہیں ہم‘ گمان پڑتا ہے

حرف تسکیں
حرف تسکیں‘ ترا شفا کا سا
دل پہ جادو ہوا دوا کا سا

سچ کا دیپک
سچ کا دیپک مانگ رہا ہے آخری سانس
جان بچا لوں میں تو محبت جاتی ہے

اہل سخن کے کہے کا‘ ایک کمال یہ بھی ہوتا ہے‘ کہ جس زاویہ سے بھی دیکھو‘ یا اشکالی اور استعمالی تبدیلیاں کر لو‘ مفاہیم کا جہاں آباد ہوتا ہے۔ باطور ثبوت یہ مثالیں پیش ہیں۔
کیا لوگ ہیں‘ ہم لذت دنیا سے بندھے ہیں
پانی کے لیے پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
کیا لوگ ہیں
ہم لذت دنیا سے بندھے ہیں
پانی کے لیے 
پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
اب اس شعر کو یوں پڑھیے
کیا لوگ ہیں ہم
پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
پانی کے لیے
لذت دنیا سے بندھے ہیں
اب یوں پڑھیے
کیا لوگ ہیں ہم‘ پانی کے لیے
پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
یہ استعارے کہاں لے جاتے ہیں‘ ذرا غور فرمائیں۔ انہیں تلمیحی حوالہ سے بھی‘ لے سکتے ہیں۔
پانی‘ پیاس‘ صحرا
ہم صوت الفاظ
سے‘ کے
انہیں باطور محاورہ لے سکتے ہیں۔
لذت دنیا سے بندھنا
پیاس کے صحرا سے بندھنا

پیار ہی پیار میں وہ آگ بگولا ہو جائے
بات ہی بات میں تلوار پہ آ جاتا ہے
پیار ہی پیار میں
وہ آگ بگولا ہو جائے
بات ہی بات میں
تلوار پہ آ جاتا ہے
اب یوں پڑھیے
بات ہی بات میں
وہ آگ بگولا ہو جائے
پیار ہی پیار میں
تلوار پہ آ جاتا ہے
تلوار پہ آنا‘ نیا محاورہ ترکیب پایا ہے۔

وہ ایک پل کہ ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
نظر نظر میں شعاعوں کا قافلہ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ
ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
نظر نظر میں
شعاعوں کا قافلہ ٹھہرا
اب یوں پڑھیے
نظر نظر میں‘ ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ شعاعوں کا قافلہ ٹھہرا
نظر نظر میں
ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ
شعاعوں کا قافلہ ٹھہرا
ترے رو بہ رو شعاعوں کا قافلہ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ ترے رو بہ رو آ ٹھہرا
شاعر کا واسطہ‘ جہاں سخن شناسوں سے ہوتا ہے‘ وہاں وسیب کے ہر طبقہ کے لوگوں سے بھی‘ تعلق اور رشتہ ہوتا ہے۔ وہ ان ہی کے دکھ درد کاغذ پر منتقل کر رہا ہوتا ہے۔ ان سے اٹوٹ رشتہ ہونے کے باعث عوامی روزہ مرہ اور عوامی تکیہءکلام‘ اس کی شعری زبان کا حصہ بن جاتا ہے۔ زیر گفت گو شاعر نے‘ اس میں بہت کم تصرف سے کام لیا ہے۔ 
پہلے پہل
پہلے پہل ہر بات پہ غصہ آتا تھا
اور مجھے حالات پہ غصہ آتا تھا
بات ہی بات میں
پیار ہی پیار میں وہ آگ بگولا ہو جائے
بات ہی بات میں تلوار پہ آ جاتا ہے
ویسے بھی
ویسے بھی کچھ خون میں گرمی تھی اس وقت
ویسے بھی ہر بات پہ غصہ آتا تھا
اس کا دیا
اس کا دیا بہت ہے
اس کا دیا بہت ہے مگر کیا کروں شمار
ہر شے ہے میرے پاس پرائی پڑی ہوئی

غزل میں شاعر تخلص آخر میں استعمال کرتا ہے۔ اختر شمار کی غزل پر میں نے گفت گو کی ہے۔ اس گفت گو کا اختتام مقطعے پر کیا ہے۔ سماج کی یہ ریتا رہی ہے‘ اگر کوئی برا کرئے‘ تو اس کے پیر اور استاد کو پنتے ہیں۔ اچھا کرنے کی صورت میں‘ استاد پس پشت چلا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کروں گا۔ علامہ بیدل حیدری نے‘ اختر شمار کو شعری ہنر سکھانے میں‘ بلاشبہ کسر نہیں چھوڑی۔ یہ اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے‘ کہ اختر شمار سے ہنر سیکھنے والے‘ لگن کے پکے بھی کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔


12 Sept 2014 | By:

صحت

صحت

کچی پکی سبزیاں:

صحت و تندرستی کے حصول اور دل کے امراض، موٹاپے اور دیگر بیماریوں سے بچنے کے لئے متوازن خوراک کا استعمال کریں۔ ایسی خواک جس میں پھل، سبزیاں، دودھ اور اناج وغیرہ سب مناسب مقدار میں شامل ہوں۔ سبزیاں انسانی جسم کو درکار تمام 

حیاتین، ریشہ، پروٹین، لحمیات، نمکیات، نشاستہ اور عناصر جیسے آئرن، کیلشیم، فاسفورس ، سوڈیم وغیرہ کی ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔ صحت و تندرستی کا راز ڈائٹنگ میں نہیں بلکہ اپنی خوراک میں تبدیلی لانے اور ایسی اشیاءکے استعمال میں ہے جو 

قدرتی طور پر انسانی جسم کے لئے ہی پیدا کی گئی ہیں۔ یہ اشیاءنباتاتی 


مادوں پر مشتمل ہوسکتی ہیں، جو مزے دار بھی ہوں اور قوت بخش بھی۔ سبزیاں انسانی جسم کے لئے کس قدر قوت بخش اور صحت افزاءہیں، اس کےلئے ہم چند سبزیوں میں موجود اجزاءکا ذکر کریں گے۔ مثلاً شلجم، ٹنڈے، لوکی، مٹر، چنے آلو، ٹماٹر، پالک، 

بیگن، بھنڈی، کھیرا، چقندر، توری، گوبھی، بند گوبھی میں وٹامن A، C اور وٹامن B کی مختلف اقسام کی مقدار 90 سے 50فیصد تک ہوتی ہے۔ پانی، پروٹین، چکنائی، نشاستہ اور نمک کی مقدار 91 سے 7 فیصد تک ہوتی ہے۔ جبکہ کیلوریز کی مقدار فی 100 

گرام غذا 100 سے 1 فیصد تک ہوتی ہے۔ عموماً پروٹین کے حصول کےلئے گوشت استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ حیوانی پروٹین دل کے دوروں کا سبب بھی بن سکتی ہے جبکہ نباتاتی پروٹین اس کے برعکس کام کرتی ہے۔ نباتاتی پروٹین میں وہ تمام ضروری 

امائنو ایسڈز بھی ہوتے ہیں جو جسم کے نئے خلیات بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 


ایسے پروٹین جو جسم کی بافتوں (ٹشوز) اور امائنوایسڈز بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ اس کے حصول کے دو طریقے ہیں: 

کوئی سبزی مثلاً لوبیا، مٹر، سویابین وغیرہ گندم یا چاول کے ساتھ ملاکر کھائی جائے۔ 

گندم، چاول یا بیج دار اشیاءتھوڑے سے گوشت، مچھلی، انڈے یا ڈیری کی اشیاءسے ساتھ ملاکر کھائی جائیں۔ ماہرین غذائیات (nutritionist) کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ سبزی خور افراد گوشت خوروں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند، توانا اور طویل عمر 

پاتے ہیں۔


 ورزش:

صحت مند اور توانا رہنے کے لئے خوب کھائیے اور پیجئے مگر ورزش، چہل قدمی، کھیل کود میں بھی ضرور حصہ لیں۔ جس تناسب سے کھائیں اور آرام کریں اسی تناسب سے ورزش بھی ضرور کریں تاکہ فاضل چربیلے مادے، جزو بدن ہونے کے 

بجائے جسم سے خارج ہوجائیں اور جسم میں چربی نہ بڑھنے پائے۔ سب سے آسان ورزش چہل قدمی ہے۔ یہ سب کے لئے مفید ہے۔ شروع میں آہستہ آہستہ، پھر قدرے تیز تیز، پھر دوڑنا صحت کےلئے بے حد مفید ہے۔ 

٭ اجناس:
نہ صرف ہمارے یہاں بلکہ پوری دنیا میں یہ غلط تاثر اور احساس پایا جاتا ہے کہ اگر موٹاپا ختم کرنا ہو یا ڈائٹنگ کرنی ہو تو یکسر کھانا پینا چھوڑ کر سلاد اور جوس کا استعمال شروع کردیا جائے یا پھر روٹی، چاول، دلیہ، گندم، آلو، سویاں، بیج وغیرہ 

کھانا چھوڑ دیئے جائیں۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان اشیاءکو چھوڑنے سے یکدم وزن تو کم ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی جسمانی توانائی و قوت کم ہوجاتی ہے اور بھوک بھی زیادہ لگتی ہے۔ 

یہ اناج ہی ہیں جو موٹاپے کو اور جسم میں چربیلے مادوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ گندم، مکئی، چنا، جو، چاول جیسی اجناس نہ صرف بھوک مٹاتے ہیں بلکہ طاقت و توانائی بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ موٹاپا بھی قریب نہیں آنے دیتے کیونکہ تمام 

اجناس میں دیگر چیزوں کے مقابلے میں حراروں کی مقدار کم ہوتی ہے۔ مشی گن اسٹیٹ یونی ورسٹی کے سائنس اور انسانی خوارک کے ماہر پروفیسر اولف میکلسن کا کہنا ہے کہ روٹی حقیقتاً وزن کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایسے انسان جو بہت 

موٹے ہیں، روٹی خوب کھائیں، دالیں، جو، مکئی اور چاول بھی غذا میں شامل کریں۔ بھوک مٹانے اور پیٹ بھرنے کا رس (جوس) سے بہترین ذریعہ کوئی نہیں۔



 پھل:
گزشتہ صدی تک دنیا بھر کے افراد کی خوراک سبزیوں، دالوں، دانہ دار اشیائ، اجناس اور تازہ پھلوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ آج اس کے برعکس دودھ، دہی، مکھن، گوشت کی بھرمار ہے۔وزن کم کرنے اور بیماریوں سے بچنے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ پھلوں 

کی مقدار غذا میں بڑھائی جائے۔ سلاد اور جوس کااستعمال بڑھایا جائے اور نشاستے دار کھانوں میں اضافہ کیا جائے۔ کولیسٹرول گھٹانے کے لئے بھی پھلوں کا اور ترش پھلوں کینو، مالٹا، سنترہ، لیمو، آم، انار وغیرہ کا استعمال کیا جائے۔ 

مٹھاس کے حصول کے لئے مٹھائیوں، کیک پیسٹری ،مصنوعی مشروبات کے بجائے اگر مکس پھلوں کی چاٹ، شہد، پھلوں کا جوس، اسکواش، ملک شیک، مربہ جات اور تازہ پھل استعمال کئے جائیں تو یہ زیادہ سودمند ثابت ہونگے۔


..........................................


10 Sept 2014 | By:

کلونجی


کلونجی 


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کلونجی استعمال کیا کرو کیونکہ اس میں موت کے سوا ہر بیماری کے لیے شفا ہے ۔ کلونجی ایک قسم کا گھاس ہے۔ اس کا پودا خودرو اور چالیس سنٹی میٹر بلند ہوتا ہے۔،بالکل سونف سے مشابہ ہوتا ہے۔پھول 

زردی مائل ،بیجوں کا رنگ سیاہ اور شکل پیاز کے بیجوں سے ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ انہیں پیاز کا ہی بیج سمجھتے ہیں۔کلونجی کے بیجوں کی بوتیز اور تاثیری شفا سات سال تک قائم رہتی ہے۔صحیح کلونجی کی پہچان یہ ہے کہ اگر اسے 

سفید کاغذ میں لپیٹ کر رکھا جائے تو اس پر چکنائی کے دھبے لگ جاتے ہیں۔کلونجی کے بیج خوشبودار اور ذائقے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اچار اور چٹنی میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے تکونے سیاہ بیج کلونجی کے ہی ہوتے ہیں۔ جواپنے اندر بے 

شمار فوائد رکھتے ہیں۔ یہ سریع لاثر یعنی بہت جلد اثر کرتے ہیں۔
اطباء قدیم کلونجی کے استعمال اور اس کے بیجوں کے استعمال سے خوب واقف تھے۔ معلوم تایخ میں رومی ان کا استعمال کرتے تھے۔ قدیم یونانی اور عرب حکماء نےکلونجی کو رومیوں ہی سے حاصل کیا اور پھر یہ پودا دنیا بھر میں کاشت اور استعمال 

ہونے لگا۔ طبی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم یونانی اطباء کلونجی سے بیج معدہ اورپیٹ کے امراض مثلًا پیٹ میں ریاح گیس کا ہونا، آنتوں کا درد، کثرت ایام، استقاء، نسیان (یادداشت میں کمی) رعشہ، دماغی کمزوری، فالج اور افزائش دودھ کے لیے 

استعمال کراتے رہے ہیں۔ رسول اللہ ۖ کے حوالے سے کتب سیرت میں ملتا ہے کہ آپ ۖ شہد کے شربت کے ساتھ کلونجی کا استعمال فرماتے تھے۔ حضرت سالم بن عبداللہ (رض) اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے 

فرمایا تم ان کالے دانوں کو اپنے اوپر لازم کرلو ان میں موت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے۔
کلونجی کی یہ اہم خاصیت ہے کہ یہ گرم اور سرد دونوں طرح کے امراض میں مفید ہے۔ جبکہ اسکا اپنا مزاج گرم ہے اور سردی سے ہونے والے تمام امراض میں مفید ہے۔کلونجی نظام ہضم کی اصلاح کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے، ریاح گیس اور 

قبص میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ جن کو کھانے کے بعد پیٹ میں بھاری پن گیس ریاح بھرجانے اور اپھارہ کی شکایت محسوس ہوتی ہو ایسے حضرات کلونجی کا سفوف تین گرام کھانے کےبعد استعمال کریں تو نہ صرف یہ شکایت جاتی رہے گی بلکہ معدہ 

کی اصلاح بھی ہوگی۔ کلونجی کو سرکہ کے ساتھ ملا کر کھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب تھوڑی سی سردی لگنے سے زکام ہونے لگتا ہے تو ایسی صورت میں کلونجی کو بھون کر باریک پیس لیں اور کپڑے میں باندھ کر 

پوٹلی بنا کر باربار سونگھنے سے زکام دور ہوجاتا ہے۔ اگر چھینکیں آرہی ہوں تو کلونجی بھون کر باریک پیس کر روغنِ زیتون میں ملا کر اس کے تین چار قطرے ناک میں ٹپکانے سے چھینکیں جاتی رہتی ہیں۔کلونجی مدر بول( پیشاب آور) بھی ہے اس کا 

جوشاندہ شہد ملا کر پینےسے گردہ و مثانہ کی پتھری بھی خارج ہوجاتی ہے۔ اگر دانتوں میں ٹھنڈا پانی لگنے کی شکایت ہوتو کلونجی کو سرکہ میں ملا کر کلیاں کرانے سے فائدہ ہوتا ہے۔چہرے کی رنگت میں نکھار پیداکرنے کے لیے باریک پیس کر گھی میں 

ملا کر چہرے پر لیپ کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ آج کل نوجوان لڑکے لڑکیوں میں کیل دانوں اورمہاسوں کی شکایت عام ہے اور مختلف بازاری کریمیں استعمال کرکے چہرے کی جلد کو خراب کرلیتے ہیں۔ ایسے نوجوان کلونجی باریک پیس کر سرکہ میں ملا 

کر سونےسے قبل چہرے پر لیپ کر لیا کریں اور صبح اٹھ کر چہرہ دھولیا کریں۔ چند دنوں میں ہی اچھے اثرات سامنے آئیں گے۔اس طرح لیپ کرنے سے نہ صرف چہرہ کی رنگت صاف اور مہاسے ختم ہونگے بلکہ جلد میں نکھار بھی آئے گا۔جلدی 

امراض میں کلونجی کا استعمال عام ہے۔جلد پر زخم ہونے کی صورت میں کلونجی کو توے پر بھون کر روغن مہندی میں ملا کر لگانےسے نہ صرف زخم مندمل ہوجائیں گے بلکہ نشان بھی جاتے رہیں گے۔ جو خواتین ایام رضاعت میں ہوں اور چھوٹے بچوں 

کو اپنا دودھ پلا رہی ہوں اور ان کو دودھ کم آنے کی شکایت ہو جس سے ان کا بچہ بھوکارہ جاتا ہوں تو ایسی خواتین کلونجی کو چھ دانے صبح نہار منہ و رات سونے سے قبل دودھ کے ساتھ استعمال کرلیا کریں تو ان کے دودھ کی مقدار میں اضافہ ہو جائے 

گا البتہ حاملہ خواتین کوکلونجی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔جن خواتین کو ماہانہ ایام کم آتے ہوں یا درد کے ساتھ آتے ہوں، پیشاب کم یا تکلیف کے ساتھ آتا ہو، وہ کلونجی کا سفوف تین گرام روزانہ استعمال کرلیا کریں ماہانہ ایام کا نظام درست ہوجائے گا۔
آج کے مشینی دورمیں مشینی لوازمات نے انسانی زندگی کو اعصابی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور ہر دوسرا شخص اعصابی دباؤ اور تناؤ میں مبتلا ہے۔ ایسے لوگ کلونجی کے چند دانے روزانہ شہد کے ساتھ استعمال کرلیا کریں۔چند دنوں میں بہتر 

محسوس کریں گے۔پیٹ اور معدہ کے امراض، پھیپھڑوں کی تکالیف اور خصوصًا دمہ کے مرض میں کلونجی بہت فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔کلونجی کا سفوف نصف سے ایک گرام تک صبح نہار منہ اور رات کو سونے سے قبل شہد کے ساتھ استعمال کر لیا 

جائے تو بہت مفید ہے۔ بعض اوقات کلونجی اور قسط شیری برابر وزن کا سفوف بنا کر صبح نہار منہ و رات سونے سے قبل استعمال کروایا جاتا ہے۔یہ نسخہ پرانی پیچش اور جنسی امراض میں بھی مفید ہے۔جن لوگوں کو ہچکیاں آتی ہوں وہ کلونجی کا 

سفوف تین گرام مکھن ایک چمچ میں ملا کر کر استعمال کریں تو فائدہ ہوتا ہے۔
کلونجی سے نکلنے والا تیل دو قسم کا ہوتاہے ایک سیاہ رنگ میں خوشبودار جو ہوا میں اٹھنے سے اڑنے لگتا ہے اور دوسری قسم انٹروی کے تیل جیسا جس کے دوائی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں، یہ تیل بیرونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور بہت سے 

جلدی امراض میں مفید ہے۔ یہ تیل بال خورہ کی شکایت میں بہت فائدہ دیتا ہے ۔ بالخورہ میں بال اڑ جاتے ہیں اور دائرے کی صورت میں نشان بن جاتا ہے پھر دائرہ دن بدن بڑھتا ہے اور عجیب سی ناخوشگواری کا احساس ہوتا ہے۔یہ تیل سر کے گنج کو دور 

کرنے اور بال اگانے میں بھی مفید ہے ۔ مزید یہ کہ اس تیل کے استعمال سے بال جلد سفید نہیں ہوتے اور اس تیل کو مختلف طریقوں سے داد، اگزیما میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اگر جسم کو کوئی حصہ بے حس ہوجائے تو یہ تیل مفید ہے۔ کان کے ورم 

اور نسیان میں بھی یہ تیل مفید ہے۔ ماہرین طب و سائنس کلونجی پر تحقیقی کام کر رہے ہیں جنھوں نے اسے مختلف امراض میں مفید پاتا اور مزید تحقیق کا عمل جاری ہے۔ گزشتہ سال برطانیہ سے ایک خاتون کلونجی پر تحقیق کے لیے پاکستان آئی تھی۔ راقم 

الحروف سے ملاقات پر اس نے بتایا کہ ایک ملٹی نیشنل ادارہ کلونجی سے ایک کریم تیار کرنا چاہتا ہے کیونکہ کلونجی جلد کو نکھارتی ہے۔ کیمیا دانوں نے کلونجی پر تحقیقات کے بعد بتایا ہے کہ اس میں ضروری روغن پائے جاتے ہیںِ اس کے علاوہ 

ونگشلین، الیوسن، ٹے نین، رال دار مادے، گلوکوز، ساپونین اور نامیاتی تیزاب بھی پائے جاتے ہیں جو کئی امراض میں موثر ہیں۔ پاکستان کے ایک ممتاز سائنسدان نے جامعہ کراچی کے شعبہ کیمیاء میں کلونجی پر جو تحقیق کی اس کے مطابق کلونجی سے جو 

اسکائڈز حاصل ہوئے ہیں کسی اور شے سے نہیں مل سکے۔ حکماء نے کلونجی کو ہمیشہ موضوعِ تحقیق و علاج بنایا ہے اور اس کو مختلف طریقوں سے مختلف امراض کے علاج میں استعمال کرایا ہے۔ کلونجی سے طب یونانی کی معروف مرکب ادویہ میں 

حب حلیت، جوارش شونیز اور معجون کلکلانج شامل ہیں۔ کلونجی کے استعمال سے لبلبہ (پانقراس) کے افرازات( لبلبہ سے خصوصی رطوبت) بڑھ جاتی ہے۔جس سے مرض ذیابیطس میں فائدہ ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض کلونجی کے سات دانے روزانہ 

صبح نگل لیا کریں۔طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور معالج ڈاکٹر خالد غزنوی ذیابیطس کے مریضوں کو کلونجی کے بیج تین حصے اور کانسی کے بیج ایک حصہ ملا کر استعمال کرانے سے مفید نتائج حاصل کرچکے ہیں۔ کلونجی کو مختلف طریقوں 

سے زہر کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاگل کتے کے کاٹنے یا بھِڑ کے کاٹنے کے بعد کلونجی کا استعمال مفیدہے۔ کلونجی میں ورموں کو تحلیل کرنے اور گلٹیوں کو گھلانے کی بھی صفت ہے۔ برص بڑا ہٹیلا مرض ہے۔ اس کے سفید داغ 

جسم کو بدصورت بنا دیتے ہیں۔ اگر برص کے مریض کلونجی اور ہالوں برابر برابر وزن لے کر توے پر بھون کر تھوڑا سرکہ ملا کر مرہم بناکر مسلسل تین چار ماہ برص کے نشانوں پر لگاتے رہیں اور کلونجی اور ہالون کا باریک سفوف شہد کے ساتھ 

روزانہ نہار منہ استعمال کیا کریں توجلد فائدہ ہوگا۔ کلونجی کی دھونی سے گھر میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑے ہلاک ہوجاتے ہیں۔اسی خصوصیت کے سبب کلونجی کو گھروں میں قیمتی کپڑوں میں رکھا جاتا ہے تاہم کلونجی کے استعمال میں یہ امر پیش 

نظر رہے کہ یہ طویل عرصہ اور زیادہ مقدار میں استعمال نہ کی جائے کیونکہ اس میں کچھ مادے ایسے بھی ہوتے ہیں جو صحت کے لیے مضر ہوسکتے ہیں۔ البتہ وقفہ دے کر پھر سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ویسے بھی اعتدال مناسب راہ عمل ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل جو ارشادات فرمائے طب و سائنس آج اس کی تصدیق کررہے ہیں۔ قربان جائیے قدرت کاملہ پر جس نے حضرت انسان کے لیے کیا کیا نعمتیں پیدا فرمائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 

نے چودہ سو سال قبل حکمت کے خوب صوت پیرائے میں انسان کو آگاہ کیا اور طب و سائنس نے چودہ صدیاں گزرنے کے بعد وہ نتائج حاصل کئے ہیں۔


انڈے کے طبی پہلو

انڈے کے طبی پہلو

انڈہ ایک نہایت عمدہ غذا اور دوا ہے اس کی نیم پکی زردی خون پیدا کر کے عام جسمانی کمزوری کو بھی دور کرتی ہے جو لوگ کسی وجہ سے کمزور ہوں انہیں انڈہ ضرور استعمال کرنا چاہیئے یہ انسانی جسم میں حرارت کی کمی پورا کرنے کے لئے بڑا 

ہی تیر بہدف ہے یہی وجہ ہے کہ موسم سرما میں ہمارے ملک میں اسے بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے انسانی غذا کے لئے جن امینو ایسڈ کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب کے سب انڈے میں پائے جاتے ہیں اس میں ایک تہائی حصہ چربی ۰۱ فیصد کاربوہائیڈ 

ریٹس شامل ہیں دھاتوں کی بھی کثیر مقدار شامل ہے جن میں فاسفورس، لوہا، گندھگ، میگنیشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، اور کلورین قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ تھوڑی سی مقدار میں جست، تانبا اور آئیوڈین بھی پائی جاتی ہیں حیاتین میں الف د اور حیاتین ای شامل ہیں 

حیاتین ب اور حیاتین سی اور البورین کی مودار مذکوررہ بالا حیاتین سے زیادہ ہے ۔
بچوں کے مرض سوکھا میں انڈے کی زردی انتہائی مفید ہے اس کی سفیدی کا پانی بچوں کے دستوں و پیچش میں بہت مفید چیز ہے۔

kisi rooz barish main gher say niklna

kisi rooz barish main gher say niklna


MAIN TEERAY SUNG SADA HOUN


7 Sept 2014 | By:

سلام کرتے ہوئے گھر میں داخل ہونے کی تاکید اور فضائل



سلام کرتے ہوئے گھر میں داخل ہونے کی تاکید اور فضائل  

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول پاک ﷺ نے فرمایا: اے انس! گھرمیں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو۔ گھر کی بھلائی میں اضافہ ہوگا۔ (ترمذی جلد۲ صفحہ ۹۹)۔ سعید بن مسیب کی روایت میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ مجھ سے رسول پاک ﷺ نے فرمایا: اے میرے بیٹے جب تم اپنے گھرمیں داخل ہو تو سلام کرو۔ یہ تمہارے اور تمہارے گھر والوں کیلئے باعث برکت ہے۔ (ترمذی جلد۲ صفحہ ۹۹)۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم گھر میں داخل ہو تو سلام کرو اور جب گھر سے نکلو تو سلام کے ساتھ نکلو۔ (مشکوٰۃ صفحہ ۳۹۹)  سلام سے شیطان گھر میں داخل نہ ہوگا: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے گھروں میں داخل ہو تو اہل خانہ کو سلام کرو۔ جب تم سلام کروگے تو شیطان تمہارے گھر میں داخل نہ ہوگا۔ (مکارم الخرائطی صفحہ ۸۱۶) فائدہ: کتنی بڑی فضیلت ہے کہ سلام کی برکت سے شیطان کے ضرر سے گھر محفوظ ہوجاتا ہے۔ آج عموماً گھروں میں شیطانی اثرات کی شکایت ہے۔ یہ اس کا حل ہے۔ اس میں حفاظت بھی ‘برکت بھی ہے۔گھرمیں سلام کرتے ہوئے جانے سے خدا کی حفاظت: حضرت ابوامامہ البابلی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ تین شخص خدا کی حفاظت اور ضمان میں ہوتے ہیں(اس میں ایک شخص وہ ہے) جو گھر میں داخل ہوتا ہے تو سلام کرکے داخل ہوتا ہے۔ تو یہ بھی خدا کی حفاظت میں ہوجاتا ہے۔ (مختصراً) (ابوداؤد جلد۱ صفحہ ۳۷۶، حاکم جلد۲ صفحہ ۷۳) فائدہ: سلام کی برکت سے جو دعاء حفظ وعافیت ہے گھر کے مکارہ اور پریشانیوں سے خدا کی حفاظت میں آجاتا ہے۔آپﷺ جب گھر میں داخل ہوتے تو اہل خانہ کو سلام فرماتے۔ آپ ﷺ گھر میں داخل ہوتے تو کبھی کھانے کے متعلق سوال کرتے ہوئے فرماتے کچھ کھانے کو ہے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ آپ ﷺخاموش رہتے یہاں تک کہ آپ ﷺکے سامنے آسانی سے جو میسر ہوتا پیش کردیا جاتا۔ (زادالمعاد)

حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا


آپ کا نام  حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  والد کا نام ابی ذویب جبکہ خاوند کا نام حارث بن عبدالعزیٰ تھا۔ 
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تعلق قبیلہ سعد سے تھا جو اس دور میں فصاحت اوربلاغت اور پانی کی شیرینی کی وجہ سے مشہور تھا۔ سرورکائنات حضور نبی اکرم ﷺ کا ایک خاص حوالے سے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک گہرا تعلق تھا۔ آپ ﷺ نے بچپن میں عرب کے دستور کے مطابق اپنی ماں کے علاوہ ایک اور پیاری گود میں بھی اپنی عمر کے ابتدائی چند سال گزارے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضور ﷺ کی رضاعی والدہ بھی تھیں۔
شرفائے عرب میں دستور تھا کہ بچوں کو ماں کے پاس نہ رکھتے تھے بلکہ اکثر پرورش اور فصیح زبان سیکھنے کیلئے دوسری عورتوں کو دے دیتے اس کیلئے عموماً قرب و جوار کے قبائلی دیہات کا چناؤ کیا جاتا۔ بچے دیہات کی کھلی آب و ہوا میں پرورش پاتے اور پھر چند برس بعد ان کے والدین انہیں واپس لے جاتے۔ یہ رواج اس وقت اس قدر مستحکم تھا کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد دیہات کی غریب عورتیں خود ہی شہر میں آتیں اور جو بچے اس مدت میں پیدا ہوئے ہوتے انہیں ان کے ماں باپ کی مرضی سے ساتھ لے جاتیں۔ سرور کائنات حضور نبی کریم حضرت محمدﷺ جب اس کائنات میں رونق افروز ہوئے تو شروع میں انہوں نے سات روز تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہی دودھ پیا۔ اس کے چند دن بعد تک حضرت ثوبیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دودھ پلایا۔ اسی اثنا میں قبیلہ بنی سعد کی چند عورتیں بچے لینے مکہ آئیں۔ ان عورتوں میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی شامل تھیں۔
دوسری سب عورتیں مالدار گھرانوں سے بچے لینے میں کامیاب ہوگئیں لیکن حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کوئی بچہ نہیں مل سکا۔ انہیں خود خبر نہ تھی کہ قسمت ان کی جھولی میں کون سی عظیم ہستی ڈالنے والی ہے۔ اس وقت مایوس ہوکر واپس جانے ہی والی تھیں کہ معلوم ہوا کہ سردار قریش عبدالمطلب کا ایک یتیم پوتا اس دنیا میں آچکا ہے۔ خاوند سے مشورہ کیا کہ اس بچے کا باپ تو دنیا میں ہے نہیں کہ جو اس بچے کی پرورش کے عوض ہمارے ساتھ مالی طور پر کچھ سلوک کرے۔ البتہ اس کے دادا کی شرافت اور عالی نسبی سے یہ توقع ہے کہ خدا اس بچہ کے طفیل ہماری بہتری کی صورت کردے۔ شوہر نے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں۔ اس بچے کو ضرور لے لو۔ خالی ہاتھ جانا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فوراً جاکر ننھے حضور ﷺ کو لے آئیں۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہ بچہ دین و دنیا کا سردار ہے اور اسے دودھ پلا کر وہ ابدی سعادت وعظمت حاصل کرنے والی ہیں۔ان دنوں عرب میں قحط کا عالم تھا۔ خشک سالی کی وجہ سے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سوکھ گیا تھا۔ خود عورتوں کو بھی دودھ بڑی مشکل سے اترتا تھا اور ان کے بچے بھوک سے بلبلاتے تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو بنو سعد بن بکر کی کچھ خواتین کےساتھ مکہ آئیں تھیں ان کے ساتھ اپنا بھی ایک شیرخوار بچہ تھا۔ یہ بھی بھوکا پیاسا ہروقت روتا رہتا تھا حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ جس دن میں نے سرور کائنات ﷺ کو گود میں لیا ہماری حالت یکسر بدل گئی۔ میری خشک چھاتیوں میں دودھ اتر آیا اور ہماری اونٹنی کے تھن بھی دودھ سے بھر گئے۔ دونوں بچوں نے خوب سیر ہوکر دودھ پیا اور ہم نے بھی خوب اونٹنی کا دودھ پیا۔ جب مکہ سے چلنے لگے تو ہمارا مریل گدھا جو سارے قافلے سے پیچھے چلتا تھا۔ بہت تیز رفتاری سے چلتا ہوا سارے قافلے سے آگے چلنے لگا۔ میرا خاوند اور قافلے کے دوسرے لوگ بار بار یہی کہتے تھے کہ یہ بچہ بہت برکت والا ہے اور حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت خوش قسمت ہے کہ ایسا سعادت مند بچہ اسے مل گیا ہے۔ جب ہم اپنے گھر پہنچے تو ہماری بکریوں کے تھن بھی دودھ سے بھر گئے۔
گاؤں کے دوسرے جانوروں کا دودھ بدستور خشک تھا اور لوگ ہماری حالت پر رشک کرتے تھے۔ آخر سب گھروں والے میرے جانوروں کے ساتھ اپنے جانور چرانے لگے۔ خدا کی قدرت سے ان جانوروں کے بھی دودھ اتر آیا۔
پس حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے گھر والے اس نصیبوں والے بچے پر سوجان سے فدا تھے اور نہایت محبت اور شفقت سے حضور ﷺ کی پرورش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے۔جب آنحضور ﷺ کی عمر مبارک دو برس ہوئی تو حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپﷺ کو ساتھ لے کر مکہ میں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس لے کر آئیں۔ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضور ﷺ کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوئیں اور اپنے پیارے بیٹے کو بہت بہت پیار کیا۔ ماں کا بچے کو اب جدا کرنے کو جی نہ چاہتا تھا لیکن حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: ’’مکہ کی آب و ہوا اس وقت بہت خراب ہے بہتر یہی ہے کہ آپ فی الحال اس بچے کو میرے پاس رہنے دیں‘‘
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے صورتحال کو سمجھتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات مان لی اور یوں حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کو پھر سے واپس اپنے قبیلے میں لے کر آگئیں۔حضور نبی اکرم ﷺ نے پانچ برس تک حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس پرورش پائی۔ حتیٰ کہ واقعہ شق الصدر پیش آیا۔اس کے بعد آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد کردیا۔حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کے بعد عرصہ دراز تک زندہ رہیں۔ ان کا سن وفات ٹھیک طرح سے دستیاب نہیں۔ سن 8ہجری میں جب آنحضور ﷺ کی عمر مبارک اکسٹھ برس تھی آپ ﷺ جعفرانہ میں گوشت تقسیم فرما رہے تھے۔ اس وقت حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور ﷺ کے پاس تشریف لائیں۔ حضور ﷺ نے خود اپنی چادر مبارک بچھا کر ان کو بے حد تعظیم و تکریم کے ساتھ بٹھایا۔ گو کہ بعض روایات میں اس بات کی اس طرح تردید ملتی ہے کہ وہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہیں بلکہ ان کی بیٹی اور حضور ﷺ کی رضاعی بہن تھیں۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دو بیٹیاں انیسہ‘ اور حذافہ تھیں جبکہ ایک بیٹا عبداللہ تھا۔غرض اس بات سے قعطاً شک نہیں کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ جلیل القدر خاتون تھیں جن کو حاصل ہونے والی سعادت پر پوری تاریخ اسلام ہمیشہ رشک کرتی رہے گی۔ جہاں تک حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قبول اسلام اور شرف صحابیت کا تعلق ہے اکثرکتب سیر اس بارے میں خاموش ہیں۔ البتہ کچھ واقعات و حالات ایسے موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا شرف اسلام سے ضرور بہرہ مند ہوئیں۔

متوازن غذا‘جسمانی ورزش سے ڈیپریشن بھگائیے


  متوازن غذا‘جسمانی ورزش سے ڈیپریشن بھگائیے  


انسانی شخصیت مثلث کی طرح تین حصوں پر محیط ہوتی ہے جن میں ایک ہے جسمانی ڈھانچہ‘ دوسرا ہے کیمیائی نظام اور تیسرا حصہ ہے اس کی نفسیات۔ بنیادی طور پر تحقیق کے یہ تین علیحدہ پہلو ہیں مگر ان تینوں میں ایک خاص توازن قائم ہونا لازمی ہے۔

اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں تو جدید دور کے پیش نظر ہر دوسرا شخص اپنے مخصوص انداز میں ڈیپریشن‘ اسٹریس اور سر کے درد کی شکایت کرتا نظر آئے گا۔ بہت سے لوگوں کو اظہار تکلیف کی زحمت ہی نہیں پڑتی کیونکہ ان کے ہاتھ میں مختلف گولیوں کے پتے اور سر کے گرد کپڑا گویا زبان حال سے خود ہی کہہ ہوتا ہے:۔؎
درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
دیکھا یہ گیا ہے کہ ڈیپریشن اور سر کے درد کیلئے زیادہ تر لوگ خود ہی اپنے لیے علاج منتخب کرلیتے ہیں اور ہزاروں روپے کی ادویات سے راہ نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک سر کے درد کی تکلیف کا کم ہی سننے میں آتا تھا مگر آج یہ حال ہے کہ بچے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ سردرد کی کیفیت کا یہ عالم ہے کہ معمولی سی پریشانی سےبھی سر کے درد کا بہانہ بن جاتا ہے درد رفتہ رفتہ شدت اختیار کرتے ہوئے سر کے پچھلے حصے تک سرائیت کرجاتا ہے۔ سر چکرانے لگتا ہے۔ ساتھ ساتھ قے اور متلی کی سی کیفیت رہتی ہے۔ درد کی یہ قسم آدھے سر کا درد کہلاتی ہے۔ اسے ’’درد شقیقہ‘‘ یا مائیگرین بھی کہتے ہیں۔
بعض لوگوں کو مستقل طور پر ڈیپریشن کی وجہ سے سردرد کی شکایت رہتی ہے۔ یہ لوگ ایک طرح اس تکلیف کے عادی بھی ہوجاتے ہیں مگر بدقسمتی سے جو تکلیف وہ اٹھارہےہیں ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کس وجہ سے اس میں مبتلا ہیں۔ باوجود کوشش کے اس کا جواب ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سر کا درد ذہنی الجھنوں کی پیداوار تو ہے ہی ساتھ ہی آلودگی اور ماحول کی خرابی اس کو مزید بڑھاتے ہیں۔ اعصابی دباؤ ایسی غذا جوغیر موضوع یا ناقص ہو عموماً غیرمتوازن غذائیں‘ ٹھنڈی یا گرم اشیاء‘ انتہائی تیز روشنی سے بھی درد سر ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بیماری کی وجہ سے بھی درد لاحق ہوسکتا ہے۔ سر درد ہرایک کو ہوسکتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بچہ ہو یا بوڑھا‘ امیر ہو غریب غرضیکہ بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ 
سر کا درد کہنے کو تو معمولی سا درد لگتا ہے ہر شخص کا درد مختلف نوعیت کا ہوسکتا ہے جن کا پس منظر بھی مختلف ہوتا ہے۔ اس طرح اس کا علاج بھی ایک دوسرے سے جدا ہوگا کسی کو بروقت علاج کرنے سے فوری آرام آجائے گا جب کہ کسی دوسرے شخص کو آرام آنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے ڈاکٹر کےکئی چکر لگانے پڑتے ہیں تب کہیں جاکے اسے آرام نصیب ہوگا۔ یہ حال زیادہ تر 30 سال یا اس سے زیادہ کی عمر کے لوگوں کا ہوتا ہے۔ دوا کے مستقل استعمال کی وجہ سے قوت مدافعت بھی متاثر ہوتی ہے اور نوبت انتہائی تیز اثر رکھنے والی ادویہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح کا معمول روز مرہ کی زندگی پر بُرا اثر ڈالتا ہے۔ اس مضمون کے ذریعہ کوشش کی گئی ہے کہ ڈیپریشن‘ اسٹریس‘ درد سر کے خلاف مؤثر اور کم قیمت علاج تجویز کیے جائیں اور آپ یہ نہ کہہ سکیں کہ ؎
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
انسانی شخصیت مثلث کی طرح تین حصوں پر محیط ہوتی ہے جن میں ایک ہے جسمانی ڈھانچہ‘ دوسرا ہے کیمیائی نظام اور تیسرا حصہ ہے اس کی نفسیات۔ بنیادی طور پر تحقیق کے یہ تین علیحدہ پہلو ہیں مگر ان تینوں میں ایک خاص توازن قائم ہونا لازمی ہے۔ اس کیلئے تین پہلوؤں پر کڑی منصوبہ بندی کے تحت کچھ ضروری عوامل کو روز مرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بنایا جائے جن میں مساج‘ پریشر پوائنٹ تھراپی و متوازن غذا جسمانی ورزش اور ذہنی سکون کیلئے یوگا کی طرز کی ورزش۔
مساج :  مساج کے ذریعے دنیا میں بے شمار لوگ ذہنی اور جسمانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ سر کے درد میں پیدا ہونے والی کیفیت جس میں ذہنی اضطراب اور اعصابی تناؤ بڑھ جاتا ہے مساج کے ذریعے کافی حد تک تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے جسم میں خون اور معدنیات یا پانی میں بھی اضافہ ہوتاہے۔ ساتھ ساتھ جسم میں جو زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں ان کو قلیل کیا جاسکتا ہے۔ مساج کےذریعے ایسے اعضاء کو بھی تحریک ملتی ہے جو سر درددور کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
پریشر پوائنٹ تھراپی:جسم کے مختلف مقامات پر ایسے پریشر پوائنٹس ہوتے ہیں جن پر دباؤ ڈالنے سے سردرد اور ڈیپریشن میں آرام محسوس ہوتا ہے۔
متوازن غذا: متوازن غذا سردرد کے ابتدا ہی سے بہت طریقے سے آرام پہنچاتی ہے۔ اکثر کھانے سردرد کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ساتھ میں کچھ غذائی اجزاء ایسے بھی ہیں جو ان کے خلاف صحت بخش کردار ادا کرتے ہیں۔ سردرد کے آرام میں مدد دیتے ہیں اس لیے اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی غذا کو متوازن اور غذائیت سے بھرپور بنیادوں پر تیار کریں۔ اس طرح مختلف قسم کے سردرد کے علاج میں ہم ان وٹامنز کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔
جسمانی ورزش:صحت مند زندگی کیلئے ورزش کی کتنی اہمیت ہے اس کا تو آپ کو اندازہ ہوگا ہی‘ ورزش نہ صرف پورے جسمانی نظام کو درست رکھنے میں اہم کردارا ادا کرتی ہے بلکہ ذہنی طور پر استحکام بخشتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سر کے درد سے پیدا ہونے والے ذہنی تناؤ اور کھنچاؤ سے تکلیف ہوتی ہے‘ ورزش اس سے بحسن و خوبی نجات دلاتی ہے۔ اس لیے جتنا ممکن ہوہلکی پھلکی ورزش کو روزانہ کے امورمیں شامل کریں۔
ذہنی سکون کے طریقے:فکریں اور پریشانیاں بھی سردرد پیدا کرتی ہیں۔ ان کے تدارک کیلئے یوگا کے طرز پر ہونے والی ذہنی سکون حاصل کرنے کی ورزشیں بہت مفید ہیں۔ ایک مفید ورزش لمبا سانس اور گہرا سانس لینے کا عمل ہے۔ اس سے ذہن اور جسم کا تناؤ دور ہوجاتا ہے اور آپ ایک بار پھر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگتے ہیں۔آپ بھی درد سر سے نجات چاہتے ہیں تو دئیے گئے طریقہ کار کی مدد سے زندگی کو ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے خوشگوار بناسکتے ہیں۔ سردرد دور کرنے کیلئے ان باتوں پر عمل کیا جائے تو پیسہ ضائع کیے بغیر اس تکلیف سے بچا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ دواؤں سے علاج سردرد کیلئے کبھی بھی حتمی علاج نہیں رہا۔ اسے وقتی طور پر دبایا تو جاسکتا ہے مگر یہ مسئلے کا درست حل نہیں۔

گرمی و حبس کے موسم میں صحت مند رہنے کے بنیادی اصول


گرمی و حبس کے موسم میں صحت مند رہنے کے بنیادی اصول

تیز دھوپ سے بچیں: گرمیوں کے موسم میں تیز دھوپ میں بغیر کسی احتیاطی تدبیر کے باہر نکلنا انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ تیز دھوپ میں ہوا بھی کافی گرم ہو کر لُو کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس کے علاوہ دھوپ کا اپنا درجہ حرارت بھی کافی زیادہ ہوتا ہے اور اس کی زد میں آنے والی تمام اشیا حتیٰ کہ زمین بھی تپ جاتی ہے۔ ایسے میں ننگے سر اور کھلا بدن لے کر باہر نکلنے سے جسم کی اندرونی گرمی باہر نکل نہیں پاتی‘ الٹا باہر کی گرمی جسم کے اندر داخل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ دماغ کو گرمی لگنے سے اس میں موجود مخصوص نظام جو عام طور پر جسم کا درجہ حرارت بڑھنے نہیں دیتا ناکارہ ہوجاتا ہے‘ یوں جسم کا درجہ حرارت ماحول کے مطابق بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے شدید گرمی میں ٹوپی یا کپڑا لے کر باہر نکلنا حتی الامکان دھوپ سے ہٹ کر چلنا اور پانی پیتے رہنا وغیرہ جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔
پانی اور مشروبات زیادہ استعمال کریں:گرمی اور اگست کے حبس میں جسم کا درجہ حرارت قابو میں رکھنے کیلئے ہماری جلد مستقل طور پر گیلی رہتی ہے۔ یہ پسینے کی وجہ سے ہوتا ہے جس کے ساتھ جسم کی گرمی بھی خارج ہوتی رہتی ہے۔ یوں ہمارے جسم کا درجہ حرارت تو ایک جگہ قائم رہتا ہے لیکن جسم میں نمکیات کی کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ہمیں پیاس لگتی ہے اور ہم کبھی کم اور کبھی زیادہ پانی پی لیتے ہیں لیکن نمکیات کو عموماً بھول جاتے ہیں۔ اس موسم میں ہمیں زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے اور درمیان میں ایسے مشروبات جن میں نمک اور کچھ چینی (مثلاً لسی‘ سکنج بین‘ شربت وغیرہ) شامل ہوں وہ بھی ضرور استعمال کرنے چاہئیں۔ نمک استعمال کرنے سے ضائع شدہ نمک جسم میں واپس آتا رہتا ہے اور کمزوری کا احساس نہیں ہوتا جس کی شکایت اس بات کا اہتمام نہ کرنے والوں میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔
پھل اور سبزیاں زیادہ کھائیں:پھل اور سبزیاں ویسے تو ہر موسم میں ہی زیادہ سے زیادہ استعمال کرنی چاہئیں لیکن گرمیوں میں تو اس امر کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ ہمارا جسم 80 فیصد سے زیادہ پانی پر مشتمل ہے اور قدرتی طورپر پائی جانے والی غذاؤں میں یہ دونوں چیزیں عموماً اتنا ہی پانی اپنے اندر رکھتی ہیں۔ اس طرح پانی بہت زیادہ نہ پینے کی صورت میں بھی پانی کی تقریباً مطلوبہ مقدار ہمارے جسم کے اندر چلی جاتی ہے۔ اس موسم میں اپنے اندر پانی کی خاصی مقدار رکھنے والی سبزیاں مثلاً کدو‘ ٹینڈے‘ کھیرا‘ ککڑی‘ حلوہ کدو اور پھلوں میں تربوز‘ خربوزہ‘ گرما‘ آلو بخارا‘ آڑو اور انگور وغیرہ موجود ہوتے ہیں‘ ان کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے اور سہولت کے مطابق تازہ پانی سے نہانے کا ضرور اہتمام کریں۔
اگست اور بیماریاں:قے‘ پیٹ میں درد‘ پاخانے اور پھوڑے پھنسیاں وغیرہ اس موسم کی عام شکایات ہیں۔ یہ تمام بیماریاں جراثیم سے ہونے والی ہیں اور آلودہ پانی‘ مکھیوں اور صفائی کا مناسب انتظام نہ ہونے سے ہوتی ہیں۔ گرمی کے موسم میں پانی کے جراثیم سے پاک ہونے کا خاص خیال رکھنا چاہیے ‘ پانی ابال کر استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ کھانے پینے کی چیزوں کو مکھیوں سے بچانا‘ غلاظت کو فوراً دھو ڈالنا اور بازار سے کھانے پینے کی اشیاء نہ کھانا جیسی احتیاطی تدابیر بھی ضرور کرنی چاہئیں۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ یرقان گرمی کی بیماری ہے کیونکہ اس میں جگر کی گرمی ہوجاتی ہے۔ یہ دونوں مفروضے غلط ہیں۔ یرقان عام طور پر جراثیم (وائرس) سے ہوتا ہے اور اس میں جگر میں گرمی نہیں بلکہ وائرس کی وجہ سے سوزش ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بیماری سردیوں میں بھی اتنی ہی دیکھنے میں آتی ہے جتنی کہ گرمیوں میں۔
پانی کی کمی یا ڈی ہائیڈریشن:    ایک مرتبہ کا پسینہ صرف پانی کی کمی کا باعث بنتا ہے لیکن اگر بار بار پسینہ آئے جیسا کہ گرمیوں کے موسم میں ہوتا ہے تو پانی کے ساتھ ساتھ جسم سے نمکیات خاص طور پر سوڈیم کی بھی کمی واقع ہوجاتی ہے اور قدرے کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔ اگر اس طرف توجہ نہ دی جائے تو مسئلہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ مسلسل ڈی ہائیڈریشن سے غنودگی یا نیم بے ہوشی سی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔ گرمی کے موسم میں پانی زیادہ پینا چاہیے لیکن صرف پانی تمام کمی کو پورا نہیں کرتا اس لیے نمکیات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔