31 Jul 2013 | By:

henna---261,270













ہم میں سے زندہ وہی رہے گا۔۔ جو دلوں میں زندہ رہے گا۔۔ urd

صحابیات اہل بیت کا روزہ اور تقویٰ

       صحابیات اہل بیت کا روزہ اور تقویٰ        


حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حیا کا پیکر
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پردے کا حد درجہ اہتمام کرتی تھیں ان کا تقویٰ بلند مرتبت تھا اور اپنے تمام کاموں میں تقویٰ سے لیس تھیں اور شرم و حیا کا پیکر تھیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تجہیز و تکفین میں خاص شدت کی گئی عورتوں کے جنازہ پر جو آج کل پردہ لگانے کا دستور ہے اس کی ابتداء ان ہی سے ہوئی۔ اس سے بیشتر عورت اور مرد سب کا جنازہ کھلا ہوا جاتا تھا چونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں انتہاء کی شرم و حیاء تھی وفات سے پہلے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو بلا کرفرمایا۔
جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردہ کا پورا لحاظ رکھنا اور سوائے میرے شوہر نامدار کے اور کسی سے میرے غسل میں مدد نہ لینا۔ تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا‘‘
حضرت اسماء نے کہا ’’ اے بنت رسول ﷺ میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈبے کی صورت بنا لیتے ہیں اور اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ آپ کہیں تو اس کو پیش کروں یہ کہہ کر خرمے کی چند شاخیں منگوائیں اور ان پر کپڑا تانا جس سے پردہ کی صورت پیدا ہوگئی اور حضرت فاطمہ بے حد مسرور ہوئیں کہ یہ بہترین طریقہ ہے۔ (اسدالغابہ جلد5 ص534) رمضان المبارک میں اگر میری بہنیں اماں فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی چادر اوڑھ لیں تو رب کریم آپ کو ہمیشہ سُکھ چین کی چادر میں ڈھانپ لے گا۔



حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا روزے سے پیار
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بھی اس صفت پر سختی سے کاربند تھیں۔ چنانچہ آپ اپنا بیشتر وقت عبادت الٰہی عزوجل میں گزارتی تھیں۔ یہاں تک کہ جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی آپ کی عبادت کی تعریف فرمائی۔ ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کی شان میں یہ الفاط حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے کہے ’’حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بہت عبادت کرنے والی روزہ رکھنے والی اور جنت میں آپ کی زوجہ ہیں‘‘
سبحان اللہ! کہ ان کی عبادت کی تعریف حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی کی آپ قرآن کریم کی حافظہ تھیں اور کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ نیز آپ اکثر روزے سے رہا کرتی تھیں بلکہ یہاں تک کہ حافظ ابنِ حجر نے لکھا ہے کہ ’’ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا روزے کی حالت میں فوت ہوئیں۔ (الاصحابہ صفحہ ۲۶۵)
اور آپ ایسے احسن طریقے سے عبادت کیا کرتی تھیں کہ کثرت صوم و صلوٰۃ سے معروف ابن سعد نے ان کی عبادت کے متعلق لکھا ہے ’’وہ (یعنی حفصہ رضی اللہ عنہا) صائم النہار اور قائم اللیل ہیں۔دوسری روایت میں ہے ’’حضرت حفصہ انتقال کے وقت تک صائمہ رہیں‘‘ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نہایت عبادت گزار تھیں‘ وہ گوشہ نشین اور پرہیز گار خاتون تھیں اور آپ کا یہ حال تھا کہ اشد ضرورت کے بغیر کبھی گھر سے باہر قدم نہیں نکالا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا زیادہ وقت عبادت میں گزرتا اگرچہ اس زمانے میں جب آپ حضور نبی اکرم ﷺ کے نکاح میں داخل ہوئیں۔ بالکل جوان تھیں مگر آپ رضی اللہ عنہا میں بزرگوں جیسی سنجیدگی اور علماء جیسا وقار تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا زیادہ وقت تلاوت قرآن پاک میں صرف ہوتا۔ آپ اس کی باریکیوں کو سمجھتیں‘ ان پر غور فرماتیں اور جو نقطہ سمجھ میں نہ آتا اس پر حضور ﷺ سے وضاحت طلب کرتیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سخاوت کی دولت سے بھی مالا مال تھیں جو مال آتا اسے اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کرکے خوشی محسوس کرتیں یہاں تک کہ اپنی جائیداد بھی وفات کے وقت اللہ عزوجل کی راہ میں صدقہ کردی۔ اگر میری بہنیں روزوں کو زبردستی اور اکتاہٹ کیساتھ قبول نہ کریںبلکہ خوش دلی کیساتھ روزے سے پیارکریں تو اللہ قیامت کے دن ہمیں بھی اماں حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ کھڑا فرمادے گا۔



حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مصائب پر صبر
جب ان کے شوہر سختیاں جھیلتے ہوئے جاں بحق ہوگئے تو ابوجہل کے چچا ابوحذیفہ بن مغیرہ نے حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ظالم ابوجہل کے حوالے کردیا اور یہ انہیں مختلف طریقوں سے ایذائیں دینے لگا اور نبی کریم ﷺ کو اپنی باتوں اور گالیوں سے ایذاء پہنچاتا۔ ایک رات اس سے حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بڑی واہیات باتیں کیں اور کہا کہ تو محمدﷺ پر اس لیے ایمان لائی ہے کہ ان سے عشق ہوگیا ہے تو جواب میں سمیہ رضی اللہ عنہا نے اسے بڑی سخت بات کہی جس پر وہ آگ بگولا ہوگیا اور اپنا غصہ اس نے ایسے اتارا کہ حضرت سمیہ کو نیزہ مار کر شہید کردیا اور ان کی روح بارگاہ الٰہی میں راضی خوشی‘ توحید و رسالت کی گواہی دیتی حاضر ہوگئی۔ رمضان المبارک میں تیسراکام یہ کریں کہ آپ پر کوئی بھی تکلیف‘ پریشانی آئی ہے تو صحابیات رضوان اللہ علیہن کی تکالیف کو سامنے رکھیں‘ آپ کی پریشانی روئی کا گالا بن کرہوا میں اُڑ جائیگی۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقام شکر


حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر کا فقر انہیں ان کی مدد اور خوشنودی کے لیے کام کرنے سے اور ان کیلئے فرمانبرداری کے اسباب مہیا کرنے سے مانع نہ تھا وہ اپنی خوشی سے سارے کام کرتیں‘ دل ایمان پر مطمئن تھا اور جو اللہ تعالیٰ نے مقدر کررکھا تھا اس پر قناعت کرتی تھیں اور اس تمام مرحلے میں ان کا توشہ صبر ہوتا تھا۔ اس صبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ حالت بدل گئی اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو وسعت اور خوشی میسر ہوگئی۔ان کے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں گھر داخل ہوا تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نماز پڑھ رہی تھیں تو میں نے سنا کہ وہ یہ آیت تلاوت کررہی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا اور ہمیں جھلسنے والے عذاب سے بچایا‘ تو یہ آگ سے پناہ مانگنے لگی۔ میں کھڑا ہوگیا اور وہ مسلسل جہنم سے پناہ کی دعا کرتی رہی جب بہت دیر ہوگئی تو میں بازار چلاگیا اور اس کے بعد وہاں سے لوٹا تب بھی روتے ہوئے جہنم سے پناہ کی دعا کررہی تھی۔نفس کا محاسبہ: حضرت اسماء پاکیزہ نفس ستھرے باطن اور اللہ تعالیٰ سے دل لگائے ہوئے تھیں وہ ہر معاملے میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتی تھیں اس کے باوجود اپنے اندر تقصیر محسوس فرماتیں حضرت ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے سر مبارک میں درد ہوجاتا تو وہ سر پر ہاتھ رکھ کر فرماتیں کہ میرے کسی گناہ کی وجہ سے ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ پاک کی ایک ایک نعمت کو گن گن کر اس پر شکر ادا کرنا آپ پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کو بہت زیادہ بڑھا دے گا۔
30 Jul 2013 | By:

darood---


♥♥♥الصلوة والسلام عليك ياسيدى يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلوة والسلام عليك ياسيدى ياحبيب الله♥♥♥
♥♥♥الصلوة والسلام عليك ياسيدى يانبى الله♥♥♥
♥♥♥الصلوة والسلام عليك ياسيدى ياشفيع المذنبين♥♥♥
♥♥♥وعلی الک و اصحابک یا سیدی يانور من نور الله♥♥♥



رمضان کی ایک رات میں عباد ت کا ثواب

  رمضان کی ایک رات میں عباد ت کا ثواب  
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کی رات میں ایک مؤمن بندہ نماز پڑھتا ہے جس نماز کے ہر سجدہ پر اُس کے لیے ڈیڑھ ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اُس کے لیے جنت میں سرخ یاقوت کا ایک اتنا بڑا گھر بنایا جاتا ہے جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوتے ہیں اور ہر دروازے پر سونے کا ایک محل ہوتا ہے۔ (یعنی گویاساٹھ ہزار محل بنائے جاتے ہیں) اور پورے ماہِ رمضان میں کسی بھی وقت خواہ رات ہو خواہ دن اگر سجدہ کرے تو اس کو ایک اتنا بڑا درخت ملتا ہے جس کے سائے میں سوار پانچ سو سال تک دوڑتا رہے۔ (الترغیب والترہیب جلد۲ صفحہ۹۳)

Lucky_naz--1


کھلا ھے سبھی کے لیےؑ بابِ رحمت

کھلا ھے سبھی کے لیےؑ بابِ رحمت
وہاں کوی رتبہ میں ادنیٰ نہ عالی
کھلا ھے سبھی کے لیےؑ بابِ رحمت

مرادوں سے دامن نہیں کوی خالی
قطاریں لگاے کھڑے ہیں سوالی

مین پہلے پہل جب مدینہ گیا تھا
تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی

وہ دربار سچ مچ مرے سامنے تھا
ابھی تک تصور تھا جسکا خیالی

میں ایک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوے تھا
تو تھی دوسرے ہاتھ میں انکی جالی

دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے تو کیسے
نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی

جو پوچھا ھے تم نے کہ میں نذر کرنے
کو کیا لے گیا تھا تو تفصیل سن لو

تھا نعتوں کا ایک ہار ، اشکوں کے موتی
درودوں کا گجرا ، سلاموں کی ڈالی

دھنی اپنی قسمت کا ھے تو وہی ھے
دیارِ نبی جس نے انکھوں سے دیکھا

مقدر ھے سب کا مقدر اسی کا
نگاہ کرم جس پہ آقا نے ڈالی

کھلا ھے سبھی کے لیےؑ بابِ رحمت
وہاں کوی رتبہ میں ادنیٰ نہ عالی
کھلا ھے سبھی کے لیےؑ بابِ رحمت

خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی

Wasif Ali Wasif--1

جس دل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد ہے' وہ ہمیشہ قرار میں رہے کا اور جائے قرار بہشت کے علاوہ کیا ہے؟ 

(واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ)

تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے حتیٰ کہ ایمان لے آؤ

جان جس میں ہے اسے رزق خدا دیتا ہے


بڑا ملال ہوا سن کے یہ صدا مجھ کو

عزیز بھول گئے خاک میں ملا کے مجھے

29 Jul 2013 | By:

Deepless-eye special --1







ترکِ اُلفت کا بہانہ چاہے


ترکِ اُلفت کا بہانہ چاہے

وہ مُجھے چھوڑ کہ جانا چاہے

آس کی خواب خیالی دیکھو
آگ پانی میں لگانا چاہے

کچھ نہیں اور تغافل ہی سہی
آرزوکوئی ٹھکانہ چاہے

وقت دیوار بنا بیٹھا ہے
وہ اگر لَوٹ بھی آنا چاہے

کوئی آہٹ تھی نہ سایہ تھا
دل تو رُکنے کا بہانہ چاہے

میں وہ رستے کی سرائے ہُوں جِسے
ہر کوئی چھوڑ کے جانا چاہے

دیکھنا دل کی اذّیت طلبی
پھر اُسی شہرکو جانا چاہے




28 Jul 2013 | By:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا


وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ

خطا کا ر سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا

مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا

اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا



عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا

رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا

ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺯﯾﺐ ﻋﺎﻟﻤﮕﯿﺮﺑﮍﺍ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻣﻐﻞ


ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺯﯾﺐ ﻋﺎﻟﻤﮕﯿﺮﺑﮍﺍ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻣﻐﻞ
ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﮔﺰﺭﺍ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﭘﺮ
ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 50ﺳﺎﻝ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﮏ
ﺩﻓﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺮﺍﻧﯽ ﺷﮩﺰﺍﺩﮦ ﺍﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ
ﻟﺌﮯ ﺁﯾﺎ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻼﻧﮯ ﮐﺎ
ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﺍﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﺟﻮ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﺑﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻠﮏ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻤﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ
ﺑﮩﺖ ﻣﻘﺮﺏ ﺣﺒﺸﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮔﺰﺍﺭ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﭘﺮ
ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﻦ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﻦ ﮨﯽ ﮐﮩﺎ
ﮐﺮﺗﺎﺗﮭﺎ
ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﻧﺼﻒ ﺷﺐ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺏ...ﺍﺩﺷﺎﮦ
ﻧﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ’’ﺣﺴﻦ‘‘ !۔ ﻧﻮﮐﺮ ﻧﮯ ﻟﺒﯿﮏ ﮐﮩﺎ
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻟﻮﭨﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ
ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﮔﯿﺎ۔
ﺍﯾﺮﺍﻧﯽ ﺷﮩﺰﺍﺩﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ
ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﻮﮐﺮ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ
ﮐﺎ ﻟﻮﭨﺎ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺟﺎﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻧﻮﮐﺮ
ﻟﻮﭨﺎ ﺍﻧﺪﺭ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﮯ
ﮐﭽﮫ ﻓﮑﺮ ﻻﺣﻖ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺗﻮ
ﻧﻮﮐﺮ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﮐﺮ
ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻟﻮﭨﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ



ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟
ﺻﺒﺢ ﮨﻮﺋﯽ ﺷﮩﺰﺍﺩﮮ ﻧﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﻦ
ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﻭﺍﻻ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ؟
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺧﻄﺮﮦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺩﻥ
ﻧﮑﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺍﺩﮮ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﻢ
ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﮑﻢ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ
ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻟﻮﭨﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ
ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ۔
ﻧﻮﮐﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ’’:ﻋﺎﻟﯽ ﺟﺎﮦ !ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ
ﺣﻀﻮﺭﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ
ﺍﺳﻢ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺿﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺘﮯ۔ ﺟﺐ
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺣﺴﻦ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻭﺿﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﻭﺭﻧﮧ ﯾﮧ ﻣﺠﮭﮯ ’’ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﻦ‘‘ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ
ﭘﮑﺎﺭﺗﮯ
ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻟﻮﭨﺎ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﺗﺎﮐﮧ
ﻭﮦ ﻭﺿﻮﮐﺮﻟﯿﮟ۔

خدا تعالیٰ حقیقتاً قضا و قدر کا مالک ہے

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ
ایک مرتبہ آپ فراغت حج کے بعد بیت اللہ میں سو گئے اور خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے باہم باتیں کر رہے ہیں ۔
اور ایک نے دوسرے سے سوال کیا کہ اس سال کتنے لوگ حج میں شریک ہوئے اور کتنے افراد کا حج قبول ہوا ۔

دوسرے نے جواب دیا کہ چھ لاکھ لوگوں نے فریضہ حج ادا کیا لیکن ایک فرد کا بھی حج قبول نہیں ہوا ۔

لیکن دمشق کا ایک موچی جو حج میں تو شریک نہیں ہوا
لیکن خدا نے
اس کا حج قبول فرما کے اس کے طفیل سب کا حج قبول کر لیا ۔

یہ خواب دیکھ کر بیداری کے بعد موچی سے ملاقات کرنے کے لیئے دمشق پہنچے موچی نے اپنا واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ بہت عرصے سے میرے قلب میں حج کی تمنا تھی اور میں نے اس نیت سے تین سو درہم بھی جمع کر لیے تھے ۔

لیکن ایک دن پڑوسی کے ہاں سے کھانا پکنے کی خوشبو آئی تو میری بیوی نے کہا کہ اس کے ہاں سے تم بھی مانگ لاؤ تا کہ ہم بھی کھالیں

چنانچہ میں نے اس پڑوسی سے جا کر کہا کہ آج آپ نے جو کچھ پکایا ہے ہمیں بھی عنایت کریں ، لیکن اس نے کہا کہ وہ کھانا آپ کے کھانے کا نہیں ہے کیونکہ سات روز سے میں اور میرے اہل و عیال فاقہ کشی میں مبتلا تھے تو میں نے مردہ گدھے کا گوشت پکا لیا ہے ۔

یہ سن کر میں خوفِ خداوندی سے لرز گیا اور اپنی تمام جمع شدہ رقم اس کے حوالے کر کے یہ تصور کر لیا کہ ایک مسلمان کی امداد میرے حج کے برابر ہے حضرت عبد اللہ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا کہ فرشتوں نے خواب میں واقعی سچی بات کہی تھی اور خدا تعالیٰ حقیقتاً قضا و قدر کا مالک ہے ۔

از حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ اللہ علیہ تذکرۃ الاولیاء صفحہ 123

آنے والو یہ تو بتاؤ شہر مدینہ کیسا ہے


آنے والو یہ تو بتاؤ شہر مدینہ کیسا ہے
سر ان کے قدموں میں رکھ کر جھک کر جینا کیسا ہے

گنبد خضریٰ کے سائے میں بیٹھ کے تم تو آئے ہو
اس سائے میں رب کے آگے سجدہ کرنا کیسا ہے

دل آنکھیں اور روح تمھاری لگتی ہے سیراب مجھے
در پہ ان کے بیٹھ کے آبِ زم زم پینا کیسا ہے

دیوانو آنکھوں سے تمھاری اتنا پوچھ تو لینے دو
وقت دعا روضے پہ ان کے آنسو بہانا کیسا ہے

وقت رخصت دل تو اپنے چھوڑ وہاں تم آئے ہو
یہ بتلاؤ عشرت ان کے در سے بچھڑنا کیسا ہے

حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں

حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں
اخوت ، علم وحکمت ، آدمیت لے کے آئے ہیں

کہا صدیق نے میری صداقت ان کا صدقہ ہے
عمر ہیں ان کے شاہد وہ عدالت لے کے آئے ہیں

کہا عثمان نے میری سخاوت ان کا صدقہ ہے
علی دیں گے شہادت وہ شجاعت لے کے آئے ہیں

رہے گا یہ قیامت تک سلامت معجزہ ان کا
وہ قرآن میں نور و ہدایت لے کے آئے ہیں


خدا نے رحمت للعٰالمیں خود ان کو فرمایا
قسم اللہ کی رحمت ہی رحمت لے کے آئے ہیں

قناعت ، حریت ، فکر وعمل ، مہر و وفا ، تقوٰی
وہ انساں کے لیے عظمت ہی عظمت لے کے آئے ہیں

حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں
اخوت ، علم وحکمت ، آدمیت لے کے آئے ہیں

گناہ

    گناہ



"بعض گناہ اس لمبی سڑک کی مانند ہوتے ہیں‘ جن پہ کوئی اسپیڈ بریکر نہیں ہوتا‘ ان پہ چلنا شروع کرو تو بس انسان پھر چلتا ہی جاتا ہے اور جب تک کوئی بڑا ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے وہ رک نہیں پاتا۔"

فقیر کو صدقہ دے کر



روزہ دار اور ڈاکو


ـــــــــــــ تکلم بھر آنکھیں



ـــــــــــــ تکلم بھر آنکھیں



Na Gawaon Nawik e Neem Kash


Na Gawaon Nawik e Neem Kash






27 Jul 2013 | By:

- میری امی کو تم بہت پسند آئے

‫لڑکی - میری امی کو تم بہت پسند آئے
لڑکا شرماتے ہوئے
 
لیکن میں شادی صرف تم ہی سے کروں گا خالہ سے بولو مجھے بھول جائے‬