30 Jun 2017 | By:

کسی کی آه لگنے میں زرا سی دیر لگتی ھے

زمانه دوست ھو جائے تو بھت محتاط ھو جانا
که اس کے رنگ بدلنے میں زرا سی دیر لگتی ھے

کوئی جو خواب دیکھو تو اسے فورا بھلا دینا
که نیندیں ٹوٹ جانے میں زرا سی دیر لگتی ھے

کسی کو دکھ کبھی دینا تو اتنا سوچ کر دینا
کسی کی آه لگنے میں زرا سی دیر لگتی ھے

بھت ھی معتبر ھیں جنھیں محبت راس آ جائے
کسی کو راه بدلنے میں زرا سی دیر لگتی ھے

Main Chup Khara Hua Hoon Darbar e Mustafa Mein

Main Chup Khara Hua Hoon Darbar e Mustafa MeinAankhon Se Bolta Hoon Darbar e Mustafa MeinMera Wajood Jese Gum Ho Ke Reh Gaya HaiKhud Se Bichar Gaya Hoon Darbar e Mustafa MeinMehsoos Ho Raha Tha Sadiyan Simat Gayi HainKuch Der Hi Raha Hoon Darbar e Mustafa MeinKya Ab Bhi Mere Rab Ka Mujh Par Karam Na HogaAb To Main Aa Gaya Hoon Darbar e Mustafa MeinAansoo Nidamaton Ke Hain Chashm e Tar Se JariChup Chup Ke Ro Raha Hoon Darbar e Mustafa MeinAllah Meri Qismat! Barsaat Rehmaton KiAankhon Se Dekhta Hoon Darbar e Mustafa MeinKirnen Nikal Rahi Hain Mere Wajood Se BhiKhursheed Ban Gaya Hoon Darbar e Mustafa MeinDil Mein Sama Gayi Hai Apnaiyat Ki KhushbooJis Jis Se Main Mila Hoon Darbar e Mustafa MeinEjaz Meri Mitti Ab Ho Gayi SawaratMain Kimiya Bana Hoon Darbar e Mustafa MeinMain Chup Khara Hua Hoon Darbar e Mustafa MeinAankhon Se Bolta Hoon Darbar e Mustafa Mein


29 Jun 2017 | By:

"ختم کہانی "


"ختم کہانی

 "دو ،تین کہانیاں سننے کے بعد بھی جب میں دادی سے کہتی "بس ایک اور "۔۔۔۔۔۔۔۔تب دادی چڑ جاتی ۔۔۔۔غصّے سے کہتی "ایک تھا راجہ ، ایک تھی رانی ۔۔۔۔۔دونو ں مر گئے ۔۔ ۔۔ختم کہانی ۔۔۔۔۔۔۔چل اب سو جا "۔میں روہانسی ہو جاتی "دادی میرے راجہ رانی کو نہیں مارو "دادی میرے پیٹ مے گدگدی کر کے کہتی "مر گئے دونو ں۔۔۔۔۔اب چپ چاپ سو جاؤ "۔میں تکیے مے سر گھسا کر دونو ں کی سلامتی کی دعا کر تے کرتے سو جاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔خواب مے دیکھتی ۔۔۔۔۔۔راجہ اور رانی ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر گہرے سمندر مے اترگئے ۔راجہ اور رانی دونو ں مر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو پھر ۔۔۔۔۔کہانی ختم کیوں نہیں ہوتی ؟؟؟؟

صبا

*اسم اعظم* -

*اسم اعظم*

"بی بی جی! میں آ جاؤں؟ " پروین نے کوڑے والی ٹوکری سے کوڑا اپنی کوڑا گاڑی میں منتقل کرتے ہوئے بی بی جان سے پوچھا -
"ہاں ہاں پروین کیوں نہیں! تم سامنے نل سے ہاتھ دھو کر آؤ تب تک میں ناشتہ منگواتی ھوں" بی بی جان نے شفقت بھرے انداز میں پروین کو جواب دیا اور ساتھ ہی اپنی بہوؤں کو آواز دینے لگیں - 
"ارے ثروت، انیلہ! بیٹی جلدی سے پروین کے لیے ناشتہ لے آؤ "
" ایک تو میں اس پروین سے بہت تنگ ھوں پتہ نہیں کیوں بی بی جان کو اس کے عیسائی ھونے سے فرق نہیں پڑتا پھر وہ کوڑا اٹھانے والی گندی عورت! ہنہ "ثروت بیگم دانت کچکچاتے ھوئے ناشتہ بنانے لگیں - 
" ہاں بھابی! میری شادی کو بھی دو سال ھونے کو آئے ہیں میں بھی یہی دیکھ رہی ہوں کہ پورے "پروٹوکول" کے ساتھ "کوڑا اٹھانے والی" پروین صاحبہ کو ہر صبح ٹرے میں ناشتہ پیش کیا جاتا ہے کچھ کہو تو یہ کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں اخلاق سے پھیلا ہے "انیلہ بیگم بھی برا مناتے ہوئے گویا ھوئیں - 
"تم دو سال کی بات کر رہی ھو میری شادی کو ساڑھے تین سال ھو چکے ہیں اس سے بھی پہلے پتہ نہیں کب سے یہ سلسلہ "پوری آب و تاب" سے جاری ہے " ثروت بیگم نےکہا اور بے دلی سے مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق ٹرے سجائی اور مصنوعی مسکراہٹ ھونٹوں پر سجائے لان میں بیٹھی پروین کے سامنے رکھی اور پلٹ گئیں - 
" کھاؤ کھاؤ پروین.. اور ہاں دیکھو پیٹ بھر کر کھانا روٹی اور چاہیے تو لے لینا ھمارے پیارے نبی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ 
"بھوک اور تکلف کو ایک جگہ اکٹھا مت کرو "- بی بی جان نے اس کے سامنے جگ سے پانی نکال کر رکھتے ہوئے کہا مگر دوسرے ہی لمحے حیران رہ گئیں - پروین نے کھانا کھانے کی بجائے منہ پر ہاتھ رکھ کر رونا شروع کر دیا تیزی سے نکلنے والے آنسو لمحوں میں اس کا چہرہ بھگو چکے تھے - 
" پروین! کیا ھوا؟ ایسے کیوں رو رہی ھو؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟ گھر میں سب ٹھیک تو ہے نا؟ "بی بی جان نے گھبرا کر ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے اور پروین کی طرف پانی بڑھاتے ہوئے کہا" چلو تم سب چھوڑو پہلے پانی پیو " پروین نے پانی پیا اور کچھ دیر سر جھکا کر بیٹھی رہی- اس کی آنسوؤں بھری کچھ سوچتی آنکھیں پل بھر کو بی بی جان پر ٹکیں - 
" بی بی جان! مجھے اپنے نبی کا کلمہ پڑھا دیں میں مسلمان ھونا چاہتی ہوں "
" کیا؟... ک.. ک.. کیا کہا تم نے "بی بی جان نے بمشکل فقرہ پورا کیا - 
" جی بی بی جان! باھوش و حواس مسلمان ھونا چاہتی ہوں-"پروین بولی 
"تم نے یہ مذہب بدلنے کا اتنا بڑا فیصلہ کس طرح اتنی آسانی سے کر لیا؟ "؛ بی بی جان ابھی تک یقین نہیں کر پا رہی تھیں-
" آسانی کہاں بی بی جان! چار سال ھو گئے ہیں قطرہ قطرہ چوٹ پڑتے.. آپ کو یاد ھے نہیں نا.. مگر مجھے آج بھی وہ دن یاد ھے جب چار سال پہلے ایک دن بھوک سے تنگ آ کر آپ سے کھانا مانگا تھا تو میرا خیال تھا کہ آپ مجھے کوئی بچی کچی روٹی شاپر میں ڈال کر ڈال کر دے دیں گی مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب آپ نے صابن سے میرے ہاتھ منہ دھلوا کر ٹرے میں رکھ کر ناشتہ پیش کیا - اور میرے جھجھکنے پر کہا بیٹی! کھا لو. ھمارے قرآن میں جگہ جگہ بھوکے کو کھانا کھانے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم صرف کسی مسلمان کے لیے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لئے ھے جو بھوکا ھو - 
مگر یہ ٹرے میں سجے قیمتی برتن! آپ مجھے عام برتنوں میں دے دیتی میں اسی میں کھا لیتی" میرے جھجھکنے پر آپ کا جواب تھا بیٹی! یہ کھانا میں تمہیں اللہ کے نام پر کھلا رہی ھوں تو اللہ کے نام پر کھلایا جانے والا کھانا میں کس طرح عام برتنوں میں کھلاؤں ؟ میرا دل گوارا نہیں کرے گا " اور پھر اس دن کے بعد سے آج تک میں اس گھر سے پہلے دن کی طرح عزت سے پیٹ بھر کر جاتی ہوں -" " مگر یہ تو چار سال سے تمہارا معمول ھے اب ایسی کیا بات ہوئی کا تم اپنا پیدائشی مذہب چھوڑنے کو تیار ھو گئی؟ " بی بی جان خوشی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں بولیں - 
" بی بی جان! آپ میری بات کا پتہ نہیں یقین کریں کہ نہ کریں میں نے آج رات خواب دیکھا کہ قیامت کا سماں ہے ہر طرف پریشانی اور خوف کا ڈیرہ ھے سورج کی تپش ہر چیز پگھلا چکی ہے ہر طرف شور و غل مچا ھے مجھ ان پڑھ کے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جو اس کیفیت کو بتلا سکوں میں چھاؤں کی تلاش میں بھاگتی ھوں قدموں کے نیچے تپتی زمین پاؤں میں چھالے بنا چکی ہے مگر کہیں پیر رکھنے جتنی بھی ٹھنڈی جگہ نہیں - اچانک میں نے کچھ لوگوں کو ایک ٹھنڈی چھاؤں میں دیکھا کیا چھاؤں تھی وہ بی بی جان جس میں موجود نہ ھونے کے باوجود اس کی ٹھنڈک کے تصور نے مجھے میرے پاؤں کے چھالے بھی بھلا دئیے اور جب جب... جب میں نے اس چھاؤں تک پہنچنے کی کوشش کی تو مجھے یہ کہہ کر وہاں سے پیچھے ہٹا دیا گیا کہ یہ اللہ کے عرش کا سایہ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس کے لیے لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور اسی کے لیے نفرت - اور بی بی جان پھر میری آنکھ کھل گئی اور میرے دل نے آپ کے مذہب کے سچا ھونے کی گواہی دی اور میں آپ کے سامنے ھوں مگر آپ کو ایک بات بتاؤں بی بی جان! اس چھاؤں میں خوشی سے چمکتا دمکتا چہرہ لیے آپ بھی موجود تھیں میں نے آپ کو خود دیکھا تھا " پروین آنسؤؤں کی لڑی میں ہنستے ہوئے خوش ھوکر بولی - حیرت اور مسرت سے بی بی جان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا - اور وہ پروین کو کلمہ پڑھانے کے لیے غسل کرنے کا کہہ کر خودسجدہ شکر ادا کرنے چل پڑیں انہیں کیا خبر تھی کہ ان کا پروین کو چار سال تک" یَا ھَادِیُ یَا رَشِیْدُ " 
(اے ھدایت دینے والے اے راستہ دکھانے والے) 
کا اسم اعظم دم کر کے کھانا کھلانے سے جہاں اسے ھدایت کا نور عطا کیا جائے گا وہاں انہیں روز ٍ قیامت سایہ ءعرش کی خوشخبری بھی اسی کے ذریعے پہنچا دی جائے گی -
تحریر : عالیہ ذوالقرنین