29 Jul 2013 | By:

ترکِ اُلفت کا بہانہ چاہے


ترکِ اُلفت کا بہانہ چاہے

وہ مُجھے چھوڑ کہ جانا چاہے

آس کی خواب خیالی دیکھو
آگ پانی میں لگانا چاہے

کچھ نہیں اور تغافل ہی سہی
آرزوکوئی ٹھکانہ چاہے

وقت دیوار بنا بیٹھا ہے
وہ اگر لَوٹ بھی آنا چاہے

کوئی آہٹ تھی نہ سایہ تھا
دل تو رُکنے کا بہانہ چاہے

میں وہ رستے کی سرائے ہُوں جِسے
ہر کوئی چھوڑ کے جانا چاہے

دیکھنا دل کی اذّیت طلبی
پھر اُسی شہرکو جانا چاہے




0 comments:

Post a Comment