7 Sept 2014 | By:

حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا


آپ کا نام  حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  والد کا نام ابی ذویب جبکہ خاوند کا نام حارث بن عبدالعزیٰ تھا۔ 
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تعلق قبیلہ سعد سے تھا جو اس دور میں فصاحت اوربلاغت اور پانی کی شیرینی کی وجہ سے مشہور تھا۔ سرورکائنات حضور نبی اکرم ﷺ کا ایک خاص حوالے سے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک گہرا تعلق تھا۔ آپ ﷺ نے بچپن میں عرب کے دستور کے مطابق اپنی ماں کے علاوہ ایک اور پیاری گود میں بھی اپنی عمر کے ابتدائی چند سال گزارے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضور ﷺ کی رضاعی والدہ بھی تھیں۔
شرفائے عرب میں دستور تھا کہ بچوں کو ماں کے پاس نہ رکھتے تھے بلکہ اکثر پرورش اور فصیح زبان سیکھنے کیلئے دوسری عورتوں کو دے دیتے اس کیلئے عموماً قرب و جوار کے قبائلی دیہات کا چناؤ کیا جاتا۔ بچے دیہات کی کھلی آب و ہوا میں پرورش پاتے اور پھر چند برس بعد ان کے والدین انہیں واپس لے جاتے۔ یہ رواج اس وقت اس قدر مستحکم تھا کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد دیہات کی غریب عورتیں خود ہی شہر میں آتیں اور جو بچے اس مدت میں پیدا ہوئے ہوتے انہیں ان کے ماں باپ کی مرضی سے ساتھ لے جاتیں۔ سرور کائنات حضور نبی کریم حضرت محمدﷺ جب اس کائنات میں رونق افروز ہوئے تو شروع میں انہوں نے سات روز تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہی دودھ پیا۔ اس کے چند دن بعد تک حضرت ثوبیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دودھ پلایا۔ اسی اثنا میں قبیلہ بنی سعد کی چند عورتیں بچے لینے مکہ آئیں۔ ان عورتوں میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی شامل تھیں۔
دوسری سب عورتیں مالدار گھرانوں سے بچے لینے میں کامیاب ہوگئیں لیکن حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کوئی بچہ نہیں مل سکا۔ انہیں خود خبر نہ تھی کہ قسمت ان کی جھولی میں کون سی عظیم ہستی ڈالنے والی ہے۔ اس وقت مایوس ہوکر واپس جانے ہی والی تھیں کہ معلوم ہوا کہ سردار قریش عبدالمطلب کا ایک یتیم پوتا اس دنیا میں آچکا ہے۔ خاوند سے مشورہ کیا کہ اس بچے کا باپ تو دنیا میں ہے نہیں کہ جو اس بچے کی پرورش کے عوض ہمارے ساتھ مالی طور پر کچھ سلوک کرے۔ البتہ اس کے دادا کی شرافت اور عالی نسبی سے یہ توقع ہے کہ خدا اس بچہ کے طفیل ہماری بہتری کی صورت کردے۔ شوہر نے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں۔ اس بچے کو ضرور لے لو۔ خالی ہاتھ جانا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فوراً جاکر ننھے حضور ﷺ کو لے آئیں۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہ بچہ دین و دنیا کا سردار ہے اور اسے دودھ پلا کر وہ ابدی سعادت وعظمت حاصل کرنے والی ہیں۔ان دنوں عرب میں قحط کا عالم تھا۔ خشک سالی کی وجہ سے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سوکھ گیا تھا۔ خود عورتوں کو بھی دودھ بڑی مشکل سے اترتا تھا اور ان کے بچے بھوک سے بلبلاتے تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو بنو سعد بن بکر کی کچھ خواتین کےساتھ مکہ آئیں تھیں ان کے ساتھ اپنا بھی ایک شیرخوار بچہ تھا۔ یہ بھی بھوکا پیاسا ہروقت روتا رہتا تھا حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ جس دن میں نے سرور کائنات ﷺ کو گود میں لیا ہماری حالت یکسر بدل گئی۔ میری خشک چھاتیوں میں دودھ اتر آیا اور ہماری اونٹنی کے تھن بھی دودھ سے بھر گئے۔ دونوں بچوں نے خوب سیر ہوکر دودھ پیا اور ہم نے بھی خوب اونٹنی کا دودھ پیا۔ جب مکہ سے چلنے لگے تو ہمارا مریل گدھا جو سارے قافلے سے پیچھے چلتا تھا۔ بہت تیز رفتاری سے چلتا ہوا سارے قافلے سے آگے چلنے لگا۔ میرا خاوند اور قافلے کے دوسرے لوگ بار بار یہی کہتے تھے کہ یہ بچہ بہت برکت والا ہے اور حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت خوش قسمت ہے کہ ایسا سعادت مند بچہ اسے مل گیا ہے۔ جب ہم اپنے گھر پہنچے تو ہماری بکریوں کے تھن بھی دودھ سے بھر گئے۔
گاؤں کے دوسرے جانوروں کا دودھ بدستور خشک تھا اور لوگ ہماری حالت پر رشک کرتے تھے۔ آخر سب گھروں والے میرے جانوروں کے ساتھ اپنے جانور چرانے لگے۔ خدا کی قدرت سے ان جانوروں کے بھی دودھ اتر آیا۔
پس حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے گھر والے اس نصیبوں والے بچے پر سوجان سے فدا تھے اور نہایت محبت اور شفقت سے حضور ﷺ کی پرورش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے۔جب آنحضور ﷺ کی عمر مبارک دو برس ہوئی تو حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپﷺ کو ساتھ لے کر مکہ میں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس لے کر آئیں۔ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضور ﷺ کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوئیں اور اپنے پیارے بیٹے کو بہت بہت پیار کیا۔ ماں کا بچے کو اب جدا کرنے کو جی نہ چاہتا تھا لیکن حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: ’’مکہ کی آب و ہوا اس وقت بہت خراب ہے بہتر یہی ہے کہ آپ فی الحال اس بچے کو میرے پاس رہنے دیں‘‘
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے صورتحال کو سمجھتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات مان لی اور یوں حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کو پھر سے واپس اپنے قبیلے میں لے کر آگئیں۔حضور نبی اکرم ﷺ نے پانچ برس تک حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس پرورش پائی۔ حتیٰ کہ واقعہ شق الصدر پیش آیا۔اس کے بعد آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد کردیا۔حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کے بعد عرصہ دراز تک زندہ رہیں۔ ان کا سن وفات ٹھیک طرح سے دستیاب نہیں۔ سن 8ہجری میں جب آنحضور ﷺ کی عمر مبارک اکسٹھ برس تھی آپ ﷺ جعفرانہ میں گوشت تقسیم فرما رہے تھے۔ اس وقت حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور ﷺ کے پاس تشریف لائیں۔ حضور ﷺ نے خود اپنی چادر مبارک بچھا کر ان کو بے حد تعظیم و تکریم کے ساتھ بٹھایا۔ گو کہ بعض روایات میں اس بات کی اس طرح تردید ملتی ہے کہ وہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہیں بلکہ ان کی بیٹی اور حضور ﷺ کی رضاعی بہن تھیں۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دو بیٹیاں انیسہ‘ اور حذافہ تھیں جبکہ ایک بیٹا عبداللہ تھا۔غرض اس بات سے قعطاً شک نہیں کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ جلیل القدر خاتون تھیں جن کو حاصل ہونے والی سعادت پر پوری تاریخ اسلام ہمیشہ رشک کرتی رہے گی۔ جہاں تک حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قبول اسلام اور شرف صحابیت کا تعلق ہے اکثرکتب سیر اس بارے میں خاموش ہیں۔ البتہ کچھ واقعات و حالات ایسے موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا شرف اسلام سے ضرور بہرہ مند ہوئیں۔

0 comments:

Post a Comment