29 Mar 2013 | By:

Hazrat Farooq(r.a) k door-i-khilafat main

  1. سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب ایران فتح ہوا تو ایران کے آخری بادشاہ یزد گرد کی بیٹی حضرت شہر بانو جنگی قیدی بن کر مال غنیمت میں آئیں جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا تو اہل مدینہ اور اسلامی لشکر سوچنے لگا کہ دیکھتے ہیں ایران کے بادشاہ یزد گرد کی بیٹی شہر بانو کس خوش نصیب کے حصے میں آتی ہے۔ جب مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے شہر بانو کی باری آئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اعلان فرما...یا کہ یزد گرد کی بیٹی شہزادی ہے اسے میں جس کی زوجیت میں دوں گا وہ بھی شہزادہ ہی ہوگا۔ لوگ سوچنے لگے کہ دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں شہزادہ کون ہے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے حسین رضی اللہ عنہ ! ہمارے ہاں شہزادہ تو ہی ہے اور حضرت شہر بانو رضی اللہ عنہ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں دیدیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی تھے مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو ترجیح دی کیونکہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہیں بلکہ آپ کے اہل بیت پاک بھی دل وجان سے عزیز اور محبوب تھے۔ ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کے دروازے پر تشریف لے گئے اور وہاں جاکر دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہوئے حاضر ہونے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ اتفاق سے ان کو حاضر ہونے کی اجازت نہ ملی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ یہ خیال کرکے کہ جب انہوں نے اپنے بیٹے کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی تو مجھے کب اجازت دیں گے، واپس آگئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اس خیال سے واپس چلے گئے ہیں تو آپ فوراً حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ مجھے آپ کے تشریف لانے کی اطلاع نہ تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں اس خیال سے واپس آگیا کہ جب آپ نے اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دی تو مجھے کب دیں گے؟،، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : انت احق بالاذن منہ وھل ابنت الشعر فی الراس بعد اللہ الا انتم۔ (الصواعق المحرقہ، 179) ’’تم اس سے زیادہ اجازت کے مستحق ہو اور یہ بال سر پر اللہ تعالیٰ کے بعد کس نے اگائے سوائے تمہارے (یعنی تمہاری بدولت ہی راہ راست پائی اور تمہاری برکت سے اس مرتبے کو پہنچا،، ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : اذا جئت فلا تستاذن۔ (الصواعق المحرقہ، 179) ’’آپ جب تشریف لایا کریں تو بغیر اجازت کے آجایا کریں،،۔





0 comments:

Post a Comment