23 Mar 2013 | By:

Allah pay yakeen


    1. کہتے ہیں ایک ملاح کی کشتی لہروں کی نظر ہوگئی اور وہ ایک جزیرے میں پھنس کر رہ گیا ۔
      اس نے جھاڑ جھنکار اکٹھا کر کے ایک جھونپڑا بنایا اور وہیں رہنے لگا ۔ دن گزرتے رہے اور کوئی اسکی مدد کو نہ آیا اور آتا بھی کیسے کہ کسی کو کیا خبر کہ وہاں کوئی موجود بھی ہے ۔ دریا کی موجیں اسکی خبر پہنچانے کی راہ میں حائل تھیں ۔
      ایک دن وہ زاروقطار روتا رہا اور اللہ پاک سے گلہ کرنے لگا اور کہا:
      "اے میرے اللہ ! تُونے میر...ے ساتھ کیا کردیا؟"
      ابھی وہ آہ و زاریوں سے فارغ ہو کر جھونپڑے سے باہر نکلا ہی تھا کہ آسمانی بجلی نے اسکے جھونپڑے کو جلا کر راکھ کردیا اور وہ ملاح یہ منظر بے بسی سے دیکھتا رہا ۔ کچھ ہی دیر کے بعد کچھ لوگ اس جزیرے کیطرف آگئے ۔
      ملاح نے پوچھا کہ تم لوگوں کو کیسے پتہ کہ یہاں کوئی ہے ؟
      لوگوں نے کہا کہ ہم نے اس طرف سے آگ اور دھواں اُٹھتا دیکھا تو خیال گزرا کہ شاید کسی کو ہماری مدد کی ضرورت نہ ہو ، بس اسی خیال سے چلے آئے ۔
      دوستو ! ہماری زندگی میں بھی بعض اوقات ایسے ہی حالات و واقعات پیش آتے ہیں اور ہم بھی پریشان و مایوسی کی راہ پر چلنے لگتے ہیں کہ یکایک اللہ پاک کیطرف سے مدد و نصرت آجاتی ہے اوریکایک حسرت و یاس کی جگہ مسرت و شادمانی لے لیتی ہے ۔
      لیکن آج کے دور کا انسان جس تذبذب‘ بے چینی اور انتشار کا شکار ہے، اس کا سبب ہی یہ ہے کہ ہمارا ایمان ذاتِ خداوندی پر سے کمزور ہو چکا۔
      اگر ہم اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہوں اور اسے رحمن ‘ رحیم‘ غفار‘ جبار‘ قدوس‘ رزاق‘ طبیب اور منصف اعظم سمجھیں تو کیسے ممکن ہے کہ حالات میں بہتری نہ آئے۔۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ کا ایمان و اعتقاد مضبوط ہو اور مشکلات و مسائل آپ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آنے دیں۔ لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔
      اللہ پاک۔۔۔ہمیں کامل ایمان اور استقامت عطا فرمائیں۔آمین

0 comments:

Post a Comment