28 Apr 2013 | By:

دین اور دنیا



دین اور دنیا

میں جب بھی باہر جاتا ہوں میں وہاں کے اسکولوں اور عبادت گاہوں میں ضرور جھانکتا ہوں‘ آپ کسی خاندان کی عادتیں‘ تربیت اور اخلاقیات جانچنا چاہتے ہیں تو آپ اس کا باتھ روم یا ٹوائلٹ دیکھئے‘ آپ اس کا باورچی خانہ دیکھئے‘ آپ اس کے سلیپر دیکھئے اور آپ اس کی کھانے کی میز دیکھئے‘ آپ چند منٹوں میں اس شخص اور اس کے خاندان کی ساری اخلاقیات سمجھ جائیں گے، آپ اسی طرح اگر کسی معاشرے کو سمجھنا چاہتے ہیں... تو آپ اس کے سرکاری اسکول میں چلے جائیں یا اس کی عبادت گاہ میں چند منٹ گزار لیں‘ آپ اس معاشرے کا ماضی‘ حال اور مستقبل تینوں جان جائیں گے۔

میرا دعویٰ ہے آپ کو دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم کے اسکولوں میں ڈسپلن‘ اطمینان‘ خوبصورتی اور علم دوستی ملے گی‘ آپ کو بچوں کے چہروں پر طمانیت‘ آنکھوں میں کھوج کی چمک اور رویوں میں احترام ملے گا‘ آپ کو اس مقابلے میں دنیا کی ہر ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ قوم کے اسکول ان نعمتوں سے محروم ملیں گے‘ آپ کو ان کے اسکولوں میں بے ترتیبی‘ گندگی‘ بد نظمی‘ بے اطمینانی اور بے علمی ملے گی‘ آپ ان کے بچوں کے چہروں پر تناؤ اور رویوں میں بدتمیزی‘ جہالت اور شدت پائیں گے‘ آپ کو وہاں کے بچے علم سے بیزار اور استاد کتابوں سے مفرور ملیں گے‘ آپ کو غیر ترقی یافتہ اقوام کی عبادت گاہوں میں بھی بد نظمی نظر آئے گی۔

آپ لوگوں کو پرانے سلیپر اور گندے جوتے پہن کر مسجدوں میں آتے دیکھیں گے‘ ان کے غسل خانے‘ استنجا خانے اور وضو خانے صاف نہیں ہوں گے‘ چٹائیوں اور صفوں پر گرد ہو گی‘ امام صاحب کی گفتگو میں شدت اور رویوں میں اختلاف ہو گا‘ آپ کو نمازی دوسرے نمازی کا حلیہ درست کرتا نظر آئے گا جب کہ ترقی یافتہ اقوام کی مساجد‘ چرچ‘ سینا گوگا اور ٹمپل ان کی طرح صاف ستھرے‘ دھیمے‘ خوبصورت اور منظم ہوں گے‘ میں درجنوں بار یورپ گیا‘ میں نے سیکڑوں چرچ دیکھے ہیں‘ میں نے وہاں آج تک کوئی پادری گندے کپڑوں میں ملبوس نہیں دیکھا‘ مجھے کوئی پادری‘ نن یا چرچ کا کوئی کیئر ٹیکر ایسا نہیں ملا جس کے دانت صاف نہ ہوں‘ عالم اسلام میں سعودی عرب‘ یو اے ای‘ ترکی اور ملائشیا کے علماء کرام اور امام حضرات میں ایسی صفائی یا نظم و ضبط ملتا ہے جب کہ باقی عالم اسلام کی مساجد اور علماء میں وہ صفائی نہیں جسے دیکھ کر ہم یہ دعویٰ کر سکیں صفائی ہمارا نصف ایمان ہے‘ بہرحال میں موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔

میری عادت ہے میں غیر ملکیوں کے اسکولوں اور عبادت گاہوں میں جھانک کر دیکھتا ہوں‘ میں آج سے دس سال قبل یونان گیا‘ میں نے یونان میں پانچ دن کا سیاحتی ٹور لے لیا تھا‘ اس ٹور میں ڈیلفی کا قدیم گاؤں آتا تھا اور میٹروا کی قدیم چٹانوں پر بنے پندرہ سو سال پرانے چرچ بھی‘ فادر جوزف سے میری ملاقات میٹروا کے چرچ میں ہوئی‘ یہ درمیانی عمر کا ایک خوبصورت جوان پادری تھا‘ یہ ترکی النسل تھا‘ اس کے آباؤ اجداد استنبول کی فتح کے بعد یونان شفٹ ہوئے اور انھوں نے ترکوں کا سارا دور یونان کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں گزار دیا‘ یہ اس نسل کا دسواں پادری تھا‘ فادر جوزف میں بے شمار خوبیاں تھیں مگر اس کی ایک خوبی نے مجھے حیران کر دیا‘ وہ اسلام کو مجھ سے زیادہ جانتا تھا۔

اس کا کہنا تھا وہ پچھلے بائیس برسوں سے ہر سال تین ماہ کسی نہ کسی اسلامی ملک میں گزارتا ہے‘ اس نے مصر سے عربی سیکھی اور دبئی میں قرآن مجید پڑھا‘ وہ حسین ہیکل سے لے کر علامہ اسد تک اور مولانا روم سے لے کر علامہ اقبال تک زیادہ تر مسلمان اسکالرز کی تحریریں پڑھ چکا تھا‘ گفتگو کے دوران اس کی ایک بات نے میری روح کو سرشار کر دیا‘ اس نے کہا ’’ آپ اگر دنیا میں اچھا انسان بننا چاہتے ہیں تو آپ کو نبی اکرمؐ کی سیرت پڑھنی چاہیے‘‘ اس کا کہنا تھا ’’ کائنات میں آج تک مسلمانوں کے نبیؐ سے زیادہ اچھا انسان نہیں گزرا‘‘ میں نے اس سے کہا ’’ آپ عیسائی ہو‘ آپ حضرت عیسیٰ ؑ کو دنیا کا سب سے اچھا انسان کیوں نہیں کہتے؟‘‘

اس نے بہت معقول جواب دیا‘ اس نے کہا ’’ ہمارے نبی نے دنیا میں کم وقت گزارا‘ وہ دنیا میں صرف 33 سال رہے اور یہ بھی گم نامی‘ مظلومیت اور پریشانی کا دور تھا چنانچہ وہ ہمیں صرف پریشانی‘ مظلومیت اور ابتلا کے بارے میں سمجھا سکے‘ انسان کا اپنے خاندان کے ساتھ کیا رویہ ہونا چاہیے‘ یہ اچھا خاوند‘ اچھا والد‘ اچھا سپہ سالار‘ اچھا حکمران‘ اچھا فاتح کیسے بن سکتا ہے؟ وہ اچھی ٹیم کیسے بنا سکتا ہے‘ یہ اچھا استاد کیسے بن سکتا ہے اور یہ لوگوں سے لوگوں کی صلاحیتوں کے مطابق کیسے کام لے سکتا ہے‘ حضرت عیسیٰ ؑ کی حیات ان معاملات میں خاموش ہے‘ جب کہ آپ کے نبیؐ نے ہر قسم کی زندگی گزاری اور آپؐ کی حیات ہر قسم کے انسان کی رہنمائی کرتی ہے‘‘ فادر جوزف کی دلیل میرے دل کو لگی۔

میں ایک رات کے لیے فادر جوزف کے پاس رک گیا‘ ہم شام کے وقت چرچ کے لان میں بیٹھ گئے‘ سورج کی سرخ ہوتی کرنیں میٹروا کی پہاڑیوں پر دستک دے رہی تھیں‘ چرچ کے چوبی فرش پر طالب علم پادری آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘ ان کے قدموں کی چاپ پھولوں کی خوشبو میں رچ کر ماحول کو زیادہ خوبصورت‘ زیادہ رومان پرور بنا رہی تھی‘ میں نے فادر جوزف سے پوچھا ’’آپ کو اسلامی تاریخ کا کون سا دور زیادہ حیران کرتا ہے‘‘ اس نے میری طرف دیکھا‘ اس کی نظریں چند لمحوں تک میرے چہرے پر گڑی رہیں‘ وہ چند لمحے اس عالم میں رہ کر ٹھنڈے لہجے میں بولا ’’میں سمجھتا ہوں مسلمانوں کے نبیؐ اور چار ابتدائی خلفاء کا دور اسلام کا سنہری ترین عہد تھا‘ مسلمان خواہ جتنی ترقی کر لیں‘ ان کی ترقی خلفاء راشدین کے برابر نہیں ہو سکتی مگر خلفاء راشدین کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ مجھے ہمیشہ پریشان کر دیتا ہے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں مسلمان دنیا میں آج جو مار کھا رہے ہیں‘ یہ اس رویئے کا تاوان ہے‘‘۔

میں نے اس سے پوچھا ’’مثلاً‘‘ وہ آگے کی طرف جھکا‘ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا ’’مثلاً مسلمانوں کو رسولؐ کے وصال کے بعد خلافت کے لیے نہیں لڑنا چاہیے تھا‘ مثلاً حضرت ابوبکرؓ کے دور میں ان مسلمانوں کو زکوٰۃ سے منکر نہیں ہونا چاہیے تھا جنھوں نے رسولؐ کی زندگی میں اسلام قبول کیا تھا‘ مثلاً حضرت عمر فاروقؓ کے صاحبزادے کو شراب نہیں پینی چاہیے تھی‘ مثلاً حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادے کو حضرت عثمانؓ کی داڑھی مبارک نہیں پکڑنی چاہیے تھی‘ حضرت عثمان غنی ؓ کو مدینہ منورہ میں قرآن مجید پڑھتے ہوئے شہید نہیں ہونا چاہیے تھا‘ آپؓ کے جنازے میں صرف 18 لوگوں کو شامل تو نہیں ہونا چاہیے تھا‘ حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے درمیان جنگ نہیں ہونی چاہیے تھی‘ حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کے درمیان بھی لڑائی نہیں ہونی چاہیے تھی اور ان لڑائیوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمان شہید نہیں ہونے چاہیے تھے اور قرآن مجید کے اوراق کو نیزوں پر نہیں پرویا جانا چاہیے تھا اور رسولؐ کے نواسے اور ان کے خاندان کو مسلمانوں کے ہاتھوں شہید نہیں ہونا چاہیے تھا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘۔

میرا چہرہ غصے اور شرم سے سرخ ہو گیا‘ وہ چند لمحوں تک مجھے دیکھتا رہا اور پھر آہستہ آواز میں بولا ’’میں اسلام کے بارے میں لکھی ہوئی ہر کتاب میں پڑھتا ہوں مسلمان اگر دین کے راستے پر آ جائیں تو ان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور ہر بار اس فقرے کے بعد اسلام کی ابتدائی تاریخ میرے ذہن میں آ جاتی ہے اور میں سوچتا ہوں مسلمانوں کی زندگی میں خلفاء راشدین سے بہتر دور نہیں آ سکتا‘ وہ لوگ ایمان کی جس پختگی اور جس اعلیٰ معیار پر کھڑے تھے آپ میں سے کوئی شخص اس تک نہیں پہنچ سکتا مگر ان کے ادوار میں بھی مکمل امن نہیں تھا‘‘۔

میری برداشت جواب دے گئی‘ میں نے غصے سے تپتپاتی آواز میں پوچھا ’’فادر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں‘‘ وہ بولا ’’میں آپ کو قدرت کا ایک اصول سمجھانا چاہتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کے ذریعے مسلمانوں کو ایک پیغام دیا‘ آپ کو قدرت نے پیغام دیا‘ معاشروں اور قوموں کے لیے صرف مذہب کافی نہیں ہوتا‘ قوموں کو سسٹم بھی درکار ہوتا ہے‘ اگر سسٹم نہ ہو تو جاہل لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب کی طرف لے جاتے ہیں اور غلط فہمیاں حضرت عثمان ؓ جیسی بڑی ہستی کو قرآن مجید کی تلاوت کے دوران شہید کر دیتی ہیں چنانچہ آپ اگر دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو دین کو دنیا کے ساتھ شامل کر لو‘ مسجد بھی آباد کرو اور دنیا کے لیے اچھے نظام بھی بناؤ ورنہ دوسری صورت میں آپ کا حال آپ کے ماضی سے مختلف نہیں ہو گا‘‘۔

0 comments:

Post a Comment